کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 149
خواہشات کی بے لگام پیروی کرکے زبان سے بے اختیاراللہ جل واعلی کی ہستی کا انکارکررہے ہیں۔اس لیے ہم یہاں پر کوئی بھی تین دلیل سائنٹیفک نمونے پر اپنے منصف ومزاج اورحق کے طالبوں پر عقل کی آواز پر کان لگانے والوں کے لیے تحریر کررہےہیں ۔امید ہےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسی میں حق کے طالبوں کے لیے کافی اورشافی تسلی اورتشفی بخش رہنمائی کاسامان مہیاکرے گا۔(اللھم آمین)
(1)۔۔۔۔۔۔یہاں پر یہ دلیل ہم گوسائنٹیفک طورپرپیش کررہے ہیں،لیکن دراصل یہ قرآن کریم کی سورت مئومنون کی اس آیت سے ماخوذ ہے:
﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍۢ فَأَسْكَنَّـٰهُ فِى ٱلْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍۭ بِهِۦ لَقَـٰدِرُونَ﴾ (المومنون:١٨)
’’ہم نے نازل کیا آسمان سے ٹھیک اندازے کے مطابق ایک خاص مقدارمیں پانی اوراس کو زمین میں ٹھہرایااورہم اس کو جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ آغاز پیدائش میں اللہ تعالی نے ایک ہی وقت زمین پراتنا پانی نازل فرمایاکہ قیامت تک کرہ ارض کی ضروریات کے لیے ان کے علم کے مطابق کافی تھا، وہ پانی زمین کے ہی نشیبی حصوں میں قرارپکڑگیا جس سے سمندر اورنہریں وجو میں آئیں اوراسی ہی پانی سے زیر زمین یا(Sub-Soil-Water)پیداہوا۔
اب یہ اسی پانی کا ہی ہیرپھیر ہے کہ جو سردی گرمی اورہواوں کے ذریعے ہوتی رہتی ہے۔اسی کو ہی برف پوش پہاڑ، دریا،چشمے اورکنویں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں اوریہی بے شمارچیزوں کی پیدائش اورترکیب میں شامل ہوتا ہے اورپھر ہوامیں تحلیل ہوکراصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے،شروع دن سے لے کرآج تک اس پانی کے ذخیرے میں نہ ایک قطرہ کمی ہوئی ہے اورنہ ہی ایک قطرہ زیادہ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے ،یہ توآیت کریمہ کا مطلب تھا،اب دلیل کی وضاحت کی جاتی ہے۔
آج مدسہ یا اسکول کے ہر ایک طالب کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اورآکسیجن کے دو