کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 142
نبی صلی اللہ علیہ وسلم باربارآسمان کی طرف کیوں دیکھتے تھے ؟اس کا صاف جواب یہ ہے کہ چونکہ وحی آسمان سے نازل ہوتی تھی آپ اس شوق میں بارباراوپر دیکھتے کہ کب وحی نازل ہوتی ہے کعبۃ اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم کی ،اوروحی کا اوپر سے نازل ہونا اس حقیقت پرواضح دلالت کرتا ہےکہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے اوروہیں سے وحی کو نازل کرتا ہے توخود قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر سےاسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿بَل رَّ‌فَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ﴾ (النساء: ۰ ١٥) ’’کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھالیا۔‘‘ احادیث صحیحہ جو کہ تواترکی حدتک پہنچ چکی ہیں ان میں اس کی تفسیراس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان کی طرف اٹھالیا اگر اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر نہ ہوتے تویوں کس طرح فرماتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا،آخرمیں اتنا عرض کریں کہ جو لوگ اللہ تعالی کے ہرجگہ حاضر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں یا اس کے قائل ہیں توان کے اس قول سے یہ بات لازم آئے گی کہ نعوذباللہ،اللہ تعالیٰ، بیت الخلاء، گندی جگہیں، بداخلاقی کے محلات اورشراب وزناکے اڈوں میں موجود ہیں۔اورپھر اس کے نتیجہ میں جو خرابی لازم آئے گی اس کی سنگینی سے کوئی بھی عقلمند انسان بےخبر نہیں رہ سکتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسےایک روایت مردی ہے جو کہ مسند احمد، ابن ماجہ،نسائی،ابن ابی حاتم اورابن جریرکی تفاسیراورعثمان بن سعید داری اپن کتاب’’الردعلي بتر المريس‘‘میں لائے ہیں جس کو امام بخاری نے اپنی صحیح کے اندرکتاب التوحید کے عنوان کے ساتھ تعلیقاجزم کے صیغہ سے ذکر فرمایاہے۔یہاں پر ہم امام احمد کے الفاظ نقل کرتے ہیں: ((عن عائشة رضي اللّٰه عنها قالت الحمدللّٰه الذي وسع سمعة الاصوات لقدجاءت المجادلة الي النبي صلی اللہ علیہ وسلم تكلمة وانا في ناحية البيت مااسمع ماتقول فانزل اللّٰه عزوجل﴿قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ