کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 141
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ علم اورقدرت کےلحاظ سے ہمارے ساتھ ہے،یعنی وہ ہم سے علو شان کے لحاظ سے بہت بلند اورعرش عظیم پرہونے کے باوجود ہماری ہرنقل وحرکت کا علم رکھتا ہے ۔خود اسی سورۃ مجادلہ کے بارے میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی تھی، بی بی صاحبہ کا گھرمسجدسےمتصل تھا کہتی ہیں کہ میں سنتی ہوں کہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےاتنی ہلکی آواز میں گفتگوکررہی تھی کہ میں نہ سمجھ سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن پاک ہے وہ ذات مبارکہ جو ہر وقت دنیاکی آوازوں کو سنتی ہے اس نے ساتوں آسمانوں سے اوپر اپنے عرش عظیم پر اس عورت کامحاورہ سن لیا۔ اورفوراًوحی نازل کرکے اس عورت کے مسئلہ کو حل کیا اوراس کی شکایت کودورکیا ۔ جیسا کہ سورت کی ابتداان الفاظ سے ہوتی ہے۔
﴿قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَـٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا وَتَشْتَكِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَٱللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَآ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌ﴾ (المجادلة:١)
’’بے شک اللہ تعالی نے سن لیا اس عورت کا قول جواپنے خاوند کے بارے میں شکایت کررہی تھی اللہ تعالی آپ دونوں کی گفتگوکوسن رہا ہے بے شک اللہ تعالی سننے والااوردیکھنے والاہے۔‘‘
بہر حال اللہ تعالیٰ کی معیت کا مطلب جو ہم نے لیا ہے وہی متفقہ طورپرسلف صالحین سے منقول ہے باقی اللہ تعالیٰ ہر جگہ باعتبارذات موجودہونے کا عقیدہ یا حلولیین، زندقین کاہے یا متاخرین،متکلمین اورآج کل کے دیوبندی حضرات کا ہے جو کہ سلف صالحین کےعقیدے کے برخلاف ہے۔قرآن کریم میں تحویل قبلہ کے بارے میں ہے:
﴿قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى ٱلسَّمَآءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَىٰهَا﴾ (البقرة:١٤٤)
’’بے شک ہم آپ کے باربارچہرہ آسمان کی طرف کرنے کو دیکھ رہے ہیں پھر ہم ضروراس قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم کریں گے جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔‘‘