کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 140
کے اوپر نہ ہوتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم باندی کے اشارہ کو کس طرح بحال رکھتے اورکس طرح اس کومومنہ قراردیتے؟اللہ کے رسول سے بڑھ کرکس کو اللہ کے بارے میں معرفت ہوسکتی ہے۔حجۃ الوداع والی حدیث توبالکل مشہورہےجس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چند باتیں پوچھنے اورسمجھانے کے بعد ان سے سوال کیا کہ کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچادیا؟توسب نے جواب دیا یہ ہاں! آپ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا۔اس پر آپ نے اپنی انگلی مبارک آسمان کی طرف اٹھاکرفرمایا۔’’اللهم اشهد‘‘اے اللہ اس بات پر گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچادیا ہے۔ اگراللہ کے لیے علو نہ ہوتا بلکہ وہی ہرجگہ بذات خود موجود ہوتاتوآپ اپنی انگلی آسمان کی طرف نہ اٹھاتے۔ اسی طرح احادیث صحیحہ میں رات کے آخری حصہ میں دنیائے آسمان پر اللہ تعالیٰ کے نزول کا ذکرموجود ہے اگر اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش عظیم پرنہ ہوتے تونزول کوئی معنی نہیں رکھتا۔ باقی ان صفات کی کیفیت کےبارے میں کوئی علم ہے اورنہ ہی ہوسکتا ہے اس لیے اس میں تاویلات وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔قرآن کریم اعلان کرتا ہے :
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ﴾ (بنی اسرائيل:٣٦)
’’ایسی بات کے پیچھے مت پڑو جس کا آپ کو علم نہیں ہے۔‘‘
کتاب وسنت میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات واردہیں ان پر اسی طرح ایمان لانا ہے جس طرح واردہوئی ہیں۔باقی کیفیات کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرناہے۔باقی قرآن میں یہ جوکہا گیا ہے:
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید: ۴)
اوراسی طرح سورۃ مجادلہ ميں ہے:
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا------الاية﴾ (المجادلہ:۷)