کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 139
بارے میں یہ معنی قطعاً درست نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس کی قدرت سے کوئی بھی چیز پہلے یا بعدمیں باہر نہیں ہوسکتی، اس لیے اللہ کا عرش پر مستوی ہونا اس معنیٰ کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا کہ عرش اس کے قبضہ میں نہیں تھا پھر اس پرغلبہ حاصل ہوا۔لہٰذا ’’اللہ تعالیٰ کا عرش پرمستوی ہونا‘‘کی صحیح معنی وہی ہے جولغت عرب کی روء سے متبادرہے جس کی مثال پہلے ذکر کرچکے ہیں وہی معنی ہے جس کو صحابہ، تابعین ، تبع تابعین اورسلف صالحین نے ان الفاظ سے سمجھی ہے۔ علاوہ ازیں ہم کہتے ہیں کہ پیش کردہ شعرمیں استویٰ بمعنی استعلاء کے نہیں ہے بلکہ اس کی وہی اصلی معنی ہوگی وہ اس طرح کہ بشر جو کہ عبدالملک بن مروان کے بھائی تھے اوروہ عراق کےامیرتھے۔سابقہ امراءبادشاہوں اورحاکموں کا یہ دستورتھا کہ جب وہ کسی ملک کی باشاہی کےلیے آتے تووہ اپنے تخت شاہی کے اوپر آکربیٹھتے تھے۔ اسی طرح یہ بشربھی عراق کا امیر بننےکے بعد اپنے تخت پر مستوی ہوکربیٹھ گیا اوراس میں کوئی خرابی نہیں ہے اس لفظ کو اپنی اصلی اورحقیقی معنی سے خارج کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی بہرحال یہ شعرہرگزحجت نہیں ہے کہ’’ثم استویٰ علی العرش‘‘کے معنی استعلاع یا غلبہ ہے جب کہ اس جگہ حقیقی معنی متعذرہ نہیں ہے توپھر مجازی معنیٰ کی طرف جانا اصولاً غلط ہے قرآن کریم میں کتنے ہی مقامات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی تمام مخلوق سے بلند ہے اورانسانی فطرت بھی یہی بتلاتی ہے مثلاً جب بندہ دعامانگتا ہے تواپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کےاندرہاتھوں کو اتنا بلند اٹھاتے تھے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی اگراللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہوتے توپھر ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بلکہ وہ کام ہی فضول بن جاتا ،اس طرح صحیح حدیث کے اندر آتا ہے کہ ایک شخص اپنی لونڈی کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کرآیا جوکہ رقبہ مومنہ کو آزادکرنا چاہتا تھا آپ نے اس لونڈی سےسوال کیا’’اين اللّٰه ‘‘اللہ کہاں ہے؟توانہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ میں کون ہوں؟توانہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا کہ آپ اللہ کے رسول ہوتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اس کو آزادکردویہ مومنہ ہے،اگراللہ تعالیٰ آسمان