کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 138
مطلب ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش سے پہلے ہی عرش پیدا ہوچکا تھا۔ اس وقت عرش پانی پرتھااگرعرش پہلے سےموجود تھا تواللہ تعالی نے یوں کیسے فرمادیا کہ: ﴿هوالَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ﴾ (الحديد:٤) ’’وه ذات جس نے آسمان وزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،پھرعرش پر مستوی ہوا۔‘‘ وغيرهامن الايةکیونکہ’’ثم تراخي‘‘اورترتیب کے لیے آتا ہے۔ اگریہاں پراستویٰ سے مراداستعلاع لیا جائے گاتومعنی یہ ہوگا کہ زمین وآسمان کی پیدائش کے بعدعرش پر غلبہ حاصل ہوا۔ حالانکہ قرآنی نص اوربخاری وغیرہ کی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش، زمین وآسمان سے پہلے پیدا ہوچکاتھا، جس پر پہلے ہی اللہ تعالیٰ کو غلبہ اورقبضہ حاصل تھاتواگراستعلاع کے معنی کروگے تومطلب یہ ہوگا کہ زمین وآسمان کے بعد اس پر غلبہ حاصل ہواہے یہ صریح تناقض ہے جس سے اللہ کا کلام پاک ہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ ٱللَّهِ لَوَجَدُوا۟ فِيهِ ٱخْتِلَـٰفًا كَثِيرً‌ۭا﴾ (النساء:٨٢) ’’یعنی اگر قرآن مجید اللہ کی کلام نہ ہوتی تواس میں بہت زیادہ اختلاف وتناقض دیکھنے میں آتا۔‘‘ لیکن اگر اس کا معنی یہ کیا جائے کہ زمین وآسمان کےپیداکرنے کے بعد اللہ تعالی عرش پر مستوی ہوا تواس معنی سے کوئی خرابی نہیں آتی،یعنی عرش عظیم کی تخلیق توپہلے ہی ہوچکی تھی مگر اس پر استواء زمین وآسمان کی تخلیق کے بعد ہوا۔ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔اورتناقض وتعارض کا شائبہ ہی ہے ۔’’فليتامل متاملون‘‘باقی جو شعر پیش کیا گیا ہے اولاً تواس کےقائل کا کوئی پتہ نہیں ہے اورنہ ہی وہ عربوں کے کسی دیوان میں ملتا ہے اس کے باوجود اس شعر میں ایک آدمی کا عراق پر غلبہ کاذکر ہے اوریہ اس لیے بات صحیح ہوسکتی ہے کہ کوئی ملک کسی کے قبضہ میں نہ ہوپھر اس پر غلبہ حاصل کرکے قبضہ میں لے آتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے