کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 137
کرایک جگہ پر واردلفظ کوبھی ان پر محمول کیا ہے لیکن یہاں پر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔استویٰ کی معنی استعلاء یا غلبہ اس کی حقیقی معنی نہیں ہے بلکہ معنی ہے لہٰذا ’’استوی علی العرش‘‘ کواس مجاز معنی پر محصول کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب قرآن کریم میں متعددبار’’استولاع علی العرش‘‘کے الفاظ آتے ہیں اورپھر ایک دوجگہوں پر ’’استویٰ علی العرش‘‘کے الفاظ آتے توپھر ہم اس کی معنی’’استولاع علی العرش‘‘ کرنے کے مجاز ہوتے لیکن قرآن کریم میں’’استولاع علی العرش‘‘کے الفاظ ایک بار بھی استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس’’استوی علی العرش‘‘کے الفاظ ایک دوکیا بلکہ سات آیات میں واردہوئے ہیں جن کی تفصیل ہم گزشتہ اوراق میں کرچکے ہیں۔لہٰذا ’’استوی علی العرش‘‘ کی معنی ’’استوی لاع‘‘ کرنا اصولاًبھی غلط ہے اوردوسرااستعلاع اورغلبہ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز پہلے قبضہ میں نہیں تھی اس پرغلبہ حاصل کرکے اپنے قبضہ میں کیا جس طرح مذکورہ شعرکا مطلب وہ حضرات اس طرح کرتےہیں کہ بشرکے قبضہ سے عراق پہلے باہرتھاپھر اس پر غلبہ حاصل کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح کے معنی اللہ تعالیٰ کے قبضے اورقدرت سے ایک لمحہ بھی باہر نہ تھی نہ ہے اورنہ ہی کبھی ہوسکے گی اس لیےاستعلاءاورغلبہ کا مطلب یہاں پر سراسربے معنی ہے اوردوسری بات کہ عرش توزمین وآسمان کی پیدائش سے بھی پہلے سے موجودتھاجس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْ‌شُهُۥ عَلَى ٱلْمَآءِ﴾ (ھود:٧) ’’اوراللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے چھ دنوں میں زمین وآسمان کو پیدا کیا اس حال میں کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ عربی گرامرکا قاعدہ ہے کہ کسی جملہ میں جو حکم ہے وہ اگر جملہ حالیہ کے واؤکے ساتھ مقیدہےتووہ جملہ حالیہ اس حکم یاخبر سے پہلے ہی ہوتا ہے ۔مثلاً کہاجائے’’جاءزيدوهوراكب‘‘یعنی زید آیا اس حال میں کہ وہ سوارتھا۔’’اس کامطلب یہ ہے کہ زید کے آنے سےپہلے ہی اس کے ہونے کی اس جملہ میں دلالت ہے، اس طرح اس آیت کریمہ کا بھی یہی