کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 136
کبھی یہ’’اِلٰی‘‘اور’’عَلٰی‘‘کےصلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔’’اِلٰی‘‘کی مثال قرآن کریم میں:
(١): ﴿هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ﴾ (البقرۃ: ۲۹)
(٢): ﴿ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ﴾ (حم السجدة:١١)
سلف کا اجماع ہےکہ یہاں پر اس کی معنی علوّوارتفاع ہے اور’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔
مثال نمبر١: ﴿لِتَسْتَوُۥا۟ عَلَىٰ ظُهُورِهِ﴾ (الزخرف:١٣)
’’تاکہ تم ان جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر(سواری کرو)۔‘‘
مثال نمبر٢: ﴿وَٱسْتَوَتْ عَلَى ٱلْجُودِىِّ﴾ (هود:٤٤)
’’يعنی نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر آکرکھڑی ہوئی ۔‘‘
اس طرح کی کئی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں ان تمام سے علو، ارتفاع اعتدال یعنی بلند ہونا ،برابرہوکر بیٹھنا مرادہے جس پر اہل لغت کا اجماع ہے جب استوی کا صلہ ’’علی‘‘آئے توہرجگہ پر معنی بلند نہ ہونا مرادہوگی جس طرح استویٰ علی العرش میں ہے۔تو استویٰ کو اپنے معنی سے کیوں محروم کیا جارہا ہے؟مجاز والی بات قطعاً درست نہیں ہے۔اس لیے کہ مجازوہاں پرمرادلیا جاتا ہےجہاں پر حقیقت متعذرہ ہو،یہاں حقیقی معنی ہرگزمتعذرہ نہیں ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ حقیقی معنی میں مخلوقات کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے تویہ درست نہیں ہےاس لیے کہ’’استوی علی العرش‘‘ اللہ کی صفت ہے اوراللہ تعالیٰ کی صفت ویسے ہی بے مثل ہیں جیسے اس کی ذات بے مثل ہے اورمجازی معنی مرادلینے کی دوسری صورت اس وقت پیش آئے گی جب مجازی معنی والے الفاظ دوسری جگہوں پر زیادہ آئے ہوں ایک یا دوجگہوں پرایک لفظ آیا ہوجس کے حقیقی معنی ان زیادہ الفاظ کے مخالف ہوپھر ان متعددمواضع کو مد نظر رکھ