کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 135
’’بے شک اللہ تعالی سے کوئی بھی چیز چاہے وہ آسمان ہویا زمین میں مخفی نہیں ہے۔‘‘ یعنی کے اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے باوجود اس کا علم وقدرت ہرجگہ موجودہے، کوئی بھی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہوسکتی ۔البتہ یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفتیں بے مثل ہیں۔یعنی عرش پر مستوی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح دنیا کےبادشاہ کسی بنائے ہوئے تخت پربیٹھ کربادشاہی چلاتے ہیں عین اسی طرح اللہ کے لیے بھی کوئی تخت ہے جس پر وہ بیٹھ کروہ بادشاہی چلاتا ہے۔ اس طرح ہرگز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے متعلق یا اس کی کیفیت کے متعلق ہمیں کوئی بھی علم نہیں ہے صرف اتنا علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے عرش عظیم کو پیدا کیا جس کے لیے ضروری تھا وہ اس کی شایان شان وعظمت وکبریائی کے مطابق ہو باقی اس پر اس کی استویٰ کی کیفیت یہ بے مثل ہے کیونکہ یہ اللہ کی صفت ہے اورذات اورصفات کے اعتبار سے کوئی بھی اللہ کے مثل یا نظیر نہیں بن سکتا۔ خلاصہ کلام کے اللہ تعالیٰ کا ساتویں آسمان کے اوپرعرش عظیم پرمستوی ہونا بے مثل ہےجس کی کوئی بھی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی ہاں اس کی قدرت وعلم ہرجگہ موجود ہے اس کےبرخلاف جہمیہ، معتزلہ، خوارج اوراشاعرہ یا متکلمین میں سے جوان کے خیالات سے متاثرہوتے ہیں انہوں نے استویٰ میں تاویل کی ہے اوراسے مجاز قراردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ استویٰ علی العرش کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر غالب ہوایاعرش اس کے قبضے وقدرت میں ہے۔جس کی دلیل پر وہ ایک شعر بھی پیش کرتے ہیں کہ "استواء بشرعلي العراقي من غير سيف اودم مهراق." یہاں پراستواء بمعنی استولاع ہے۔یعنی غالب ہوا،شعرکی معنی ہے بشرغالب ہواعراقی پر بغیر تلوارچلائے ہوئے اوربغیر خون بہائے۔اس کا جواب یہ ہے کہ استویٰ کا لفظ کبھی تو بغیرصلہ کے استعمال ہوتا ہے جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَٱسْتَوَىٰٓ﴾ (قصص:١٤) ’’اورجب وہ پہنچاطاقت کو اورطاقت تام کو۔‘‘