کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 133
صاحب ہے کہ جس کی وجہ سے وہ واقعتاًاورحقیقتاًہرچیز کی حمدوثنا وتعریف کا اہل ہے اس کےبعد تیسراکلمہ اللہ اکبر’’کا سکھایاگیاہےکہ انسان کو صفات سلبیہ اورثبوتیہ کے علم حاصل ہونے کے باوجود اس کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ وہ خیالات،تصورات اوروہم گمان سے بھی بڑا ہے۔اس لیے کہا گیا کہ اللہ ہر چیز سے بڑا ہے ۔تاکہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اورکبریائی کا ایمان وایقان مزید پختہ ہوجائے کیونکہ کلمہ’’لا الہ الا اللہ‘‘کے اندر یہ درس ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات محامدات وکمالات میں دوسری کوئی ہستی شامل شریک نہیں ہے بلکہ وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے اس کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے باقی سارے اس کی مخلوقات میں سے ہیں جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔جب معلوم ہوا اللہ تعالی سے تعلق پیداکرنے کے لیے اس کی صفات کا علم ضروری ہے اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عرش عظیم پر مستوی ہونا بھی اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس سے بندوں کو آگاہ کرنا اس لیے ضروری تھا تاکہ ان کو اس بات کا علم ہوسکے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کائنات کو پیدا کرنے کے بعد ان سے لاتعلق نہیں ہوا ہے بلکہ جس طرح کوئی بادشاہ تخت بادشاہی پر بیٹھ کر اپنی حکومت چلاتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے عرش عظیم پر مستوی ہوکراس کائنات کے کارخانے کو چلارہا ہے اوردنیا کی ہرچیز پر اس کی نظر ہے۔آسمان وزمین کو اسی نے تھام ہوا ہے ۔جس طرح سورت فاطر میں فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُمْسِكُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ أَن تَزُولَا﴾ (فاطر:٤١) ’’اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو روکا ہوا ہے تاکہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں۔‘‘ اسی طرح سورہ ملک میں فرماتے ہیں: ﴿أَوَلَمْ يَرَ‌وْا۟ إِلَى ٱلطَّيْرِ‌ فَوْقَهُمْ صَـٰٓفَّـٰتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا ٱلرَّ‌حْمَـٰنُ ۚ إِنَّهُۥ بِكُلِّ شَىْءٍۭ بَصِيرٌ‌﴾ (ملك:١٩) ’’یعنی کیا یہ انسان نہیں دیکھتے کہ آسمان وزمین کے بیچ میں جوپرندے صفیں بناکراڑتے ہیں اورپھر اپنے پروں کو بند بھی کرتے ہیں ان پرندوں کو فضا کے اندر