کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 132
کیا ہے۔ اورعبادت صحیح نمونے پر اس وقت ہوسکے گی جب معبودکادل میں صحیح تصورقائم ہویہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب کبریانے اللہ تعالیٰ کی ان تمام صفات کا ذکر کیا ہےجن کی معرفت سے اللہ کے بارے میں جتنا علم ہوسکے وہ ہوجائے۔ اب آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ متشابہات جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات بھی شامل ہیں ان کو اللہ نے کیوں بیان فرمایاہے مثلاً بندوں کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ سمیع اوربصیر ہے، اس لیے کہ بندے یہ جان لیں ان کارب ہرحال میں دیکھ رہا ہے اورہماری تمام دعائیں سن رہا ہے اوروہ مشکل کشاجل وعلیٰ اپنے فضل وکرم سے ان کی دعاکوقبول کرے اوراس مشکل سے اس کو نجات دلائے ۔اسی لیےانہیں بتایاگیا کہ اللہ تعالیٰ غفار، غفوروغیرہ ہے اس لیے اگربندوں سے خطائیں اورغلطیاں ہوں تو وہ مایوس بالکل نہ ہوں بلکہ ان کے دلوں میں وہ یقین اورامید باقی رہے کہ ہمارا مالک وحدہ لاشریک لہ ہے بہرحال بخشنے والااوربےحد مہربان ہے ۔اس لیے ہم اگر اس کی طرف رجوع کریں گے اورتوبہ تائب ہوں گے تووہ ضرور ہمیں اپنی مغفرت اوررحمت واسعہ سے نوازے گا۔ اسی طرح دوسری صفات ثبوتیہ کو سمجھنا چاہئے۔کتاب وسنت میں ہمیں چند کلمات سکھائے گئے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق ہمیں کافی اورشافی علم عطاکرتے ہیں جن کے پڑھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے وہ کلمات یہ ہیں۔’’سبحان اللہ‘‘اس کلمہ میں اللہ تعالیٰ سے ہر عیب ونقص اورخامی کی نفی کی گئی ہے۔یعنی یہ لفظ صفات سلبیہ کی طرف اشارہ کررہا ہے مگر کسی عیب کی صرف نفی اس کی معرفت کے لیے کامل نہیں ہوئی۔مثلا جس طرح کہاجائے کہ فلاںشخص یا بادشاہ اندھا نہیں ہے یالنگڑانہیں ہے۔ کانہ یا بدصورت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن عیوب کی نفی کے باوجود سننے والے کے دل میں ابھی تک تشنگی باقی رہتی ہے لیکن جب اس صفات کو ثبوتیہ کا علم ہوجائے توپھروہ مطمئن ہوجاتا ہے اوریہ سمجھ لیتا ہے کہ مجھے اس ہستی کے بارے میں کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے اس لیے سبحان اللہ کے بعد الحمدللہ کا کلمہ سکھایاکہ وہ تمام عیوب سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی صفات حمیدہ اورکمالات کا