کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 131
جل وعلی کے لیے ہے جس کی یہ یہ صفات ہیں اوراس سے یہ یقین قائم ہوگا کہ میں کسی موہوم چیز کی بندگی نہیں کررہا بلکہ ایک ایسی ہستی کی بندگی کررہا ہوں جو خود بھی موجود ہے اوردوسری مخلوق کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے جو کہ ان ان صفات کمال سے متصف ہے ،اورصفات دوقسم کی ہیں۔ (1)صفات ثبویہ (2)صفات سلبیہ ان دونوں صفات کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ انسان کے دل میں اللہ تعالی کے بارے میں صحیح تصور قائم ہوسکے ،صفات ثبویہ سے مراد وہ صفات ہیں جو کسی ہستی میں موجود ہوں،مثلاًاللہ تعالیٰ کا غفور،رحیم ،شکور،ودود،عادل ہونا اس قسم کی تمام صفات ثبویہ ہیں۔ اوروہ صفات جن کا تعلق عیوب، نقائص۔ عجزوکمزوری،ظلم وناانصافی وغیرہم سے ہواس طرح کی صفات جس میں پائی جائیں وہ اس کے عیوب میں شمار ہوں گی، لہٰذا جس طرح صفات جلال وکمال کی اثبات اللہ تعالیٰ کے لیے ضروری ہے اس طرح ذات جل وعلی سے ان تمام صفات کی نفی بھی ضروری ہے جو نقص وعیوب پر دلالت کرنے والی ہوں۔ اس کی صفات جلال وجمال کے خلاف ہوں ،ایسی صفات کو صفات سلبیہ کہا جاتا ہے مثلاً سورۃ اخلاص میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (الاخلاص:۴) ’’یعنی اس کا کوئی ثانی یا برابری والا نہیں ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے جومخلوق کے اندر موجود ہیں جس طرح سورہ شوریٰ میں اللہ تعالی ٰفرماتے ہیں: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری: ۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے وہ سنتا اوردیکھتا ہے ۔‘‘ لیکن اس کا سننا اوردیکھنا مخلوق کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کا سمیع اوربصیر ہونا بے مثل ہے۔ اسی طرح کتاب وسنت میں ہر اس صفت کی نفی کی گئی ہے جس میں ذرہ برابر نقص یاعیب کی بوآتی ہو۔ اب خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا