کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 130
یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کے دل میں اللہ تعالی کی اتنی محبت ہوتی ہے کہ دنیا کی کسی چیز سے اتنی محبت نہیں ہوتی ،قرآن کریم سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ﴾ (البقرۃ:١٦٥) ’’اورجوایماندارلوگ ہیں وہ توسب سے بڑھ کراللہ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ سے بےانتہامحبت ہے اوریہ اتنی بڑی محبت یہ تعلق ورشتہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کے علم کا نتیجہ ہے۔ سورۃ ذاریات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶) ’’کہ میں نے جنوں اورانسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ اورظاہر ہے کہ کسی کی عبادت اس کی معرفت کے بغیر تصورمیں نہیں آسکتی،تواگربندوں کو رب کی صفات کا علم نہ ہوتا تواس کی عبادت کس طرح کرسکتے تھے۔ جہمیہ وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا ہے درپردہ گویا اللہ سبحانہ وتعالیٰ معاذاللہ کوئی چیز ہی نہیں ہے۔یاکوئی مستقل ہستی نہیں ہے کیونکہ انسان جو مشاہدات اس دنیا میں کرتا ہے جن کا تعلق چاہےجمادات یا نباتات کی اقسام سے ہویا حیوانات کے باب سے حیوانات سے مرادجاندارچیزیں ہیں۔ان تمام کی کچھ نہ کچھ صفات ہیں موجودات میں سے کوئی بھی چیزصفات سے عاری نہیں ہے پھر اگر اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت ہی نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہواکہ (معاذاللہ)اللہ تعالی ایک موہوم چیز ہے،جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے،اوراس سے بڑھ کر کوئی دوسرا کفریہ عقیدہ نہیں ہوسکتا۔ دوسرے الفاظوں میں یوں سمجھیں کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی صفات کاانکاری ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے وجودکا انکاری ہے۔ خلاصہ کلام کہ بندوں کو اللہ کی بندگی کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ذہنوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم ہو اوراس علم کے ذریعے ان کے دل اوردماغ میں اللہ تعالیٰ کے متعلق صحیح یقین اورتصورقائم ہوسکے کہ میری یہ عبادت اس ذات پاک