کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 129
والا ہے، ان کی تکالیف پر خبر گیری اورمددکرنے والاہے،وغیرہ وغیرہ تو اس کی ان خوبیوں کی اعلیٰ صفات کی معرفت سے ہمیں اس کے بارے میں کافی حد تک صحیح علم ہوجاتا ہے، اس لیےوہ عوام جس کو اپنے اس بادشاہ تک رسائی حاصل نہیں ان کے دل میں بھی یہ یقین کامل ہوجاتاہے کہ بادشاہ جب رحم دل اورعدل وانصاف کا علمبردارہے ظلم وزیادتی سے کنارہ کشی کرنےوالا ہے توہماری مشکلات کی اگر اس کو اطلاع ہوگئی توضرور ہماری مددکرے گااورمشکل وقت میں ضرورہمارے کام آئے گا،اس کی ان خوبیوں اورکمالات کومدنظر رکھ کر لوگ اس سے بےپناہ محبت کرنے لگتے ہیں ،اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو کہ پوری مخلوق کا خالق ومالک اورحقیقی بادشاہ ہے جس نے اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے اس دنیا میں مبعوث کیا اوراسی امتحان کی خاطر انہیں حکم کیا کہ وہ ان دیکھے ان پرایمان لائیں غیب پر ایمان لائیں یہی وجہ ہے کہ اس دنیا فانی کی مخلوق اس فانی دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی اورانسان جس چیز کو نہیں دیکھ سکتا آخر اس کے ساتھ تعلق کس طرح قائم کرسکتا ہے ؟کسی چیز کے ساتھ کسی کا تعلق یا تواس کے حسن وجمال، خوبیوں اورکمال کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے یا اس کی صفات حمیدہ اوراس کی بے شمار خوبیوں کے علم حاصل کرنےسے پید اہوتا ہے ،جبکہ ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے اس لیے ان سے تعلق قائم کرنے کی صرف واحد صورت یہی بچتی ہے کہ ہمیں ان کی صفات اوراسمائے حسنی کا علم ہوجائے پھر جب بندے کو یہ علم ہوجاتا ہےکہ ہمارا رب اللہ خالق بھی ہے مالک بھی ہے تمام مخلوق کی پرورش بھی کررہا ہے ان کو رزق بھی دے رہا ہے ،عدل وانصاف والا ہے،کسی پر ذرے برابربھی ظلم نہیں کرتا ،بندوں پر رحم کرتاہے ان سے محبت کرتا ہے اوران کی فریاد رسی بھی کرتا ہے جب بھی اس کو پکارا جائے توپکار کو سنتا بھی ہے اورقبول بھی کرتا ہے۔ گناہوں کو معاف کرنے والا ہے رات کے آخری حصہ میں دنیا آسمان پر نازل ہوکربندوں کو پکارپکارکراپنے گناہوں اورخطاوں کی معافی طلب کرنے کا کہتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری صفات حمیدہ کے علم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ بندہ اپناتعلق اللہ تعالیٰ سے استوارکرلیتا ہے اوردل ہی دل میں اللہ تعالی سے محبت کرتا ہے