کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 122
﴿فَكُبْكِبُوا۟ فِيهَا هُمْ وَٱلْغَاوُۥنَ﴿٩٤﴾وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ﴾ (الشعراء:٩٤’٩٥)
’’پھروہ سب اورکل گمراہ لوگ جہنم میں اوپر تلے ڈال دیے جائیں گے۔‘‘
یہی سبب ہے کہ ابتدامیں توابلیس نے ہی بندوں کو گمراہ کرنے کےلیےبھاگ دوڑ کی تھی حتیٰ کہ ایک بڑا لشکرتیارکرلیابعدازاں خود ایک جگہ بیٹھ گیااوراس کے چیلے چھاٹے خلق اللہ کو گمراہ کرتے ہیں اورخود ابلیس کہیں بھی نہیں جاتا الایہ کہ کوئی بڑا معرکہ سرکرنا ہویا کسی ایسے آدمی کو گمراہ کرنا ہو جو اس کے چھوٹے کارندوں سے گمراہ نہ ہوتا ہو یا کسی ایسی جگہ برائی پھلانی ہو جہاں اس کے چھوٹے نہ پھیلاسکتے ہوں۔ایسی صورتوں میں ابلیس وہاں جاکرخودکام کرتا ہے ورنہ ہر جگہ وہ نہیں جاتا بلکہ اس کے متبع ہی یہ کام سرانجام دیتے ہیں اس حقیقت کابیان اس حدیث صحیحہ کے اندر ہے کہ:
’’شیطان ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاکربیٹھا ہوا ہے پھر اس کے پاس اس کے چیلے چھاٹے آکراپنی اپنی کارگزاریاں پیش کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں سے زنا کروایا، کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں سے ناحق خون کروایاہےوغیرہ وغیرہ، مگر ابلیس ہر ایک کو کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا پھر ایک اورآگےبڑھ کرکہتا ہے میں نے فلاں میاں بیوی کواس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک ان کے درمیان جدائی نہ کروائی۔ پھر ابلیس اس سے بغلگیر ہوکر کہتا ہے کہ تم نےبہت اچھا کام کیا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ابلیس خاص ہر جگہ نہیں جاتا بلکہ یہ کام اس کے چیلوں کے ذمے ہوتا ہے جوگمراہی پھیلاتے رہتے ہیں جب یہ حقیقت ذہن نشین ہوگئی توحدیث کا مطلب بھی صاف ہوگیا اکہ ابلیس کی طرف سے ہر ایک ملک میں شیطان مقررہےجوکہ سورج کے طلوع اورغروب کے وقت اس کے آگے کھڑا ہوا ہوتا ہے اس حالت میں کہ سورج اس کے کندھوں کے درمیان طلوع اورغروب ہوتا ہوا معلوم ہوتاہے ۔(یعنی دورسے)