کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 121
کو بھی شیطان کہا گیا ہے۔جس طرح سورۃ بقرۃ میں منافقوں کے ذکر کے وقت اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَإِذَا خَلَوْا۟ إِلَىٰ شَيَـٰطِينِهِمْ قَالُوٓا۟ إِنَّا مَعَكُمْ﴾ (البقرۃ:١٤)
’’یعنی جب وہ اپنے شیاطین یعنی کافروں کے ساتھ تنہائی میں ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
اسی طرح سورۃ انعام میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا﴾ (الانعام:۱۱۲)
’’یعنی اس طرح ہم نے شیطان جنوں اور انسانوں کو ہرنبی کےلیے دشمن بنایاہے ۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ شیطان کوئی خاص’’ابلیس‘‘ کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایک گمراہ کن سرکش ہے ،پھر وہ جن ہویا انسان وہ شیطان ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کےقابل ہے کہ جنوں میں بھی صرف ایک ابلیس ہی شیطان نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک بڑا قافلہ ہے اگرچہ ابتدا میں ابلیس ایک ہی گمراہ تھا جس طرح انسانوں کا باپ بھی ایک ہی تھاجس سے دوسرے انسان پیدا ہوئے اوربڑھے اسی طرح ابلیس نے بھی بعد میں (مہلت ملنے کے بعد)اپنے کئی پیروکاربنادیے ہیں جو ہرجگہ انسانوں اورجنوں کی صورت میں موجودہیں۔اس حقیقت کی طرف قرآن نے کئی جگہوں پر اشارہ کیا ہے ۔مثلاً:
﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَـٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ قَدِ ٱسْتَكْثَرْتُم مِّنَ ٱلْإِنسِ﴾ (الانعام:١٢٨)
’’اوروہ دن جس دن اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا (اورفرمائے گا)اے جنوں کی جماعت تم نے انسانوں سے بڑی جماعت ساتھ لے لی۔‘‘
﴿إِنَّهُۥ يَرَكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ﴾ (الاعراف: ٢٧)
’’وہ اوراس کا گروہ تمھیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سےتم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔‘‘