کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 112
خلف الامام پڑھنے کے متعلق بالکل صحیح بلکہ اصح احادیث واردہوئی ہیں مگرساتھ ہی کچھ قرأت خلف الامام(مطلق قراۃ نہ کہ قراۃ الفاتحہ)سے مانع روایات بھی موجود ہیں۔
لہٰذا محدثین دونوں احادیث کو ذکر کرکے ان ضعیف احادیث کاحال بیان کرتے آئےہیں تاکہ مقابل ان سے استدلال نہ کرسکے۔
(٢):۔۔۔۔۔۔کسی مسئلہ کے متعلق صحیح حدیث بھی ہے مگر اس کے موافق کچھ ضعیف حدیثیں بھی ہیں جن کا ضعف خفیف ہے تومحدثین ان ضعیف احادیث کو بھی ذکر کردیتے ہیں تاکہ صحیح کچھ طرق(خواہ ضعیف ہی سہی)کی وجہ سے زیادہ قوی بن جائے یعنی اصل دلیل کی بنیاد صحیح حدیث ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ اس کے موافق ضعیف حدیثیں بھی آگئیں توثابت شدہ دلیل کو مزید تقویت حاصل ہوگئی۔
(٣):۔۔۔۔۔۔کسی مسئلہ کے متعلق یا کسی بات کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث واردنہیں ہوئی مگراس مسئلہ کے متعلق کسی صحابی کا قول یا فعل واردہوا ہے تومحدثین کرام رحمہم اللہ کسی ضعف خفیف کی حامل حدیث کو ذکر کرتے ہیں تاکہ اس قول یا فعل صحابی کو کچھ تقویت حاصل ہویا اس طرح کہا جائے کہ اس طرف یہ پہلو کو ترجیح دی جاسکے۔
(٤):۔۔۔۔۔۔کوئی بھی صحیح حدیث واردنہیں ہوئی مگرایک ضعیف حدیث واردہوئی ہے لیکن وہ شدید ضعف کی حامل ہے ۔لہٰذا محدثین کرام ایسی حدیث کو بھی بسااوقات ذکر کرتے ہیں لیکن اس لیے نہیں کہ اس کو دلیل بنایاجائے بلکہ اس لیے کہ اس کا حال معلوم کرکے عوام کو اس سےاحتراز کی تلقین کریں کیونکہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن سے ہر مسلم کو بے حد عقیدت مندی ہوتی ہے پھر جب وہ یہ سنتاہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق یا فلاں معاملہ کے متعلق آپ کاارشاد واردہےتووہ اس کی اتباع کی کوشش کرتا ہے ،اس لیے محدثین رحمہم اللہ کو وہ حدیث لاکرتصریح کرنی پڑتی ہے تاکہ عوام بھی ان ضعیف یا موضوع حدیثوں کو بیان کرنے نہ لگ جائیں۔کیونکہ ایسی روایتوں کی نسبت بھی آپ کی طرف کرنا گناہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے: