کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 97
ہونا چاہیے کہ میرے والد صاحب نے مجھے چھوڑ رکھا ہے۔کبھی کبھار ہی میرا پتہ لینے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو جزائے خیر عطا فرمائے،وہی میرا اور میری بیٹی کا خیال رکھتا ہے اور ہمیں مکمل محبت اور امان سے نوازتا ہے۔اور میری یتیم بیٹی کو بھی والد جیسا پیار مہیا کرتا ہے۔وہ اس سے وہ سلو ک کرتاہے۔جو اس کے گھر والوں نے بھی نہیں کیا۔محترم مولانا صاحب میں اور میری بیٹی بہت ہی زیادہ محبت ورعایت کے محتاج ہیں،میری آپ سے گزارش ہے کہ آ پ کچھ معلومات فراہم کریں۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ جواب:۔اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے آپ کا سوال کئی ایک اُمور پر مشتمل ہے،کچھ توتنبیہ کے محتاج ہیں اور کچھ کے متعلق سوال ہے: سوال میں شادی کے متعلق والد کی موافقت کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ آپ کے والد کی رضا مندی ضروری ہے۔کہ نہیں؟تو اس کے بارے میں گزارش ہے کہ آپ کے علم میں ہوناچاہیے کہ شریعت اسلامیہ نے عقد نکاح صحیح ہونے کے لیے عورت کے ولی کی شرط لگائی ہے جس کے بہت سے دلائل قرآن وسنت میں موجود ہیں۔ عقد نکاح میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ شرط لگائی ہے اس میں بہت بڑی حکمت ہے۔مردوں میں اصل چیز یہ ہے کہ وہ عقل کے اعتبار سے کامل ہیں اور مصلحتوں کو زیادہ جاننے والے ہیں اور دوسرے مردوں کے حالات کا بھی انھیں زیادہ علم ہوتا ہے۔کہ عورت کے لیے کون سا مرد مناسب رہے گا؟وار انہیں یہ فیصلہ کرنے پر زیادہ قدرت ہے۔بالخصوص جب عورت ا پنے جذبات میں قابوآجاتی ہے۔ بالفرض اگرولی میں عیب ہو جس کی وجہ سے وہ ولی نہیں بن سکتا ہو اور اپنی ولایت میں بسنے والی عورت کے معاملات نہ چلا سکتا ہو پھر وہ بغیر کسی شرعی عذر کے کسی مناسب رشتہ سے عورت کا نکاح کرنے سے انکار کرتا ہوتو اس حالت میں ولایت اس کے بعد والے شخص میں منتقل ہوجائے گی مثلاً والد سے دادا ہیں۔ رہا مسئلہ اس شخص کے گھر والوں کی ر ضا مندی کا تو اس کے بارے میں گزارش ہے کہ شادی کے صحیح ہونے میں ان کی رضا مندی شرط نہیں کیونکہ مرد خود ہی اپنے آپ کا ولی ہے۔اس کے لیے ا پنی شادی کرنے میں کسی کی موافقت کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی مرد کے گھر والوں کو یہ حق پہنچتا ہے۔کہ وہ بغیر کسی شرعی سبب کے اسے شادی سے روکیں۔لیکن لڑکے کو والدین کی رضا مندی کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ان سے حسن سلوک کا حکم ہے اور ایسا کرنا اچھا اور بہتر ہے اور ایک مستحسن امر ہے اور اس رضا مندی کے حصول کے لیے ان کے ساتھ