کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 95
گزر چکے ہوں اور ان کے بچے بھی ہوں؟ایک دوسرا سوال بھی ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی بھاگ کر شادی کر لیں اور دو یا چار سال بعد والدین اس شادی پر رضامندی کا اظہار کر دیں تو کیا یہ شادی صحیح ہو گی اور اس شادی کو کس طرح صحیح کیا جا سکتا ہے؟ جواب:۔جو عورت اپنے ولی کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر شادی کرے اس کا نکاح باطل سے خواہ اسے دس برس بھی گزر جائیں،یہ صحیح نہیں ہوگا۔اور خواہ ان کی اولاد بھی ہو بلکہ ولی کی رضا مندی کے ساتھ ا س کا دوبارہ نکاح کرنا واجب ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ"ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔"[1] جو عورت خود ہی اپنا نکاح کرلے اس کے لیے حدیث میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے۔حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت کو زانیہ قرار دیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿لا تُزَوِّجِ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ،وَلا تُزَوِّجِ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا﴾ "کوئی عورت کسی دوسری عورت کا(ولی بن کر)نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے ا پنا نکاح خود کریا۔" [2] اور دو سرا سوال کے بارے میں ہم گزارش کریں گے کہ اگر ولی اس شادی سے موافقت کرلے تو واجب یہ ہے کہ نکاح دوبارہ کیا جائے کیونکہ پہلا عقد نکاح صحیح نہیں تھا۔اور خاوند اور بیوی کو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے کیے کی خالص اور سچی توبہ کرنی چاہے۔اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد) کیا مرد بھی ولی کے بغیر نکاح کرسکتا ہے؟ سوال:۔کیامرد کے لیے بھی عقد نکاح میں ولی کا ہونا شرط یا واجب ہے،اگر جواب اثبات میں ہوتو کیا مرد کا کوئی بھی قریبی شخص اس کا ولی بن سکتا ہے؟ جواب:۔مرد کے لیے عقد نکاح کےوقت ولی کا ہونا واجب نہیں،بلکہ مرد تو خود اپنے نکاح کا ذمہ دار ہے۔لیکن عورت عقد نکاح میں ولی کی محتا ج ہے۔اور اس کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہوتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
[1] [( صحیح ارواء الغلیل(1858) صحیح الجامع الصغیر(7298)] [2] [( حسن :ہدایۃ الرواۃ(3072) صحیح ابن ماجہ(1527) کتاب النکاح:باب لا نکاح الا بولی ابن ماجۃ(1882) دارقطنی (3/227) بیہقی(7/110)]