کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 92
موافق نہ بھی ہوں؟اور پھر والد صاحب دین کے معاملے میں بھی ایسا شخص اختیار کریں گے جو کہ ان کی خواہش کے مطابق ہو،وہ لوگوں کو اپنی طاقت ودولت اور نام دکھانا پسند کرتے ہیں،تو کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسی دعا بتائیں جسے پڑھنے سے والد صاحب کا اخلاق بہتر ہو جائے اور ایک سہل پسند بن جائیں تاکہ معاملات طے کرنے میں آسانی پیدا ہو؟تعاون کی درخواست کی جاتی ہے۔ جواب:جمہور علماے کرام کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ نکاح کی شروط میں ولی کا ہونا بھی ایک شرط ہے،عورت کا نکاح ولی کے بغیر ثابت ہو جائے کہ والد ولی بننے کا اہل نہیں تو پھر ولایت اقرب رشتہ دار میں منتقل ہو جائے گی مثلاً دادا وغیرہ میں۔ دوسری بات یہ ہے کہ شرعی صفات وشروط جو کہ خاوند میں ہونا ضروری ہیں ان میں سب سے اہم دین ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘[1] تیسری بات یہ ہے کہ نکاح کی شرعی شروط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہونے والی بیوی کی رضامندی بھی شامل ہونی چاہیے۔اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’کسی شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورے کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کی جائے۔صحابہ کرام نےعرض کیا:اے اللہ کے رسول!اس کی اجازت کیسے ہو گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ وہ خاموش رہے۔‘‘[2] اس لیے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اسے کسی بھی شخص سے شادی کرنے پر مجبور کرے اور اسی طرح لڑکی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ ولی کی اجازت کے بغیر خود ہی شادی کر لے۔صحت نکاح کے لیے ولی کی موجودگی شرط ہے اور لڑکی جس سے نکاح نہیں کرنا چاہتی اسے اس کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کرنے سے اسے نافرمان شمار نہیں کیا جائے گا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ
[1] [(حسن، إرواء الغلل: 1868، ترمذي: 1084، كتاب النكاح، باب ماجاء إذا جاء كم من ترضون دينه فزوجوه، ابن ماجة: 1967، كتاب النكاح: باب الأكفاء)] [2] [(بخاري: 5136، كتاب النكاح، باب لاينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، مسلم: 1419)]