کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 90
گناہ گار ہو گی،کیا والدین کے اختیار کردہ شخص سے شادی نہ کرنے کا بیٹی کو اختیار ہے؟ جواب:شروط نکاح میں یہ شامل ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں کی عقد نکاح پر رضامندی ہو جس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث میں موجود ہے: «عن أبى هريرة رضي اللّٰهُ عنه أن النبى صلى اللّٰهُ عليه وسلم قال:لا ينكح الأيم حتى تستا مر ولا تنكح البكر حتى تستأذن،قالوا يارسول اللّٰه!وكيف إذنها؟قال:أن تسكت» ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورے کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کی جائے۔صحابہ کرام نے عرض کیا،اے اللہ کے رسول!اس کی اجازت کیسے ہو گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ وہ خاموش ہو جائے۔‘‘[1] معلوم ہوا کہ جس طرح لڑکے کی رضا مندی ضروری ہے اسی طرح لڑکی کی رضا مندی ہونا بھی لازمی ہے،لہٰذا والدین کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس سے کر دیں جسے وہ ناپسند کرتے ہوں۔لیکن اگر والدین نے شادی کے لیے ایسا رشتہ اختیار کیا جو نیک صالح اور اخلاقی لحاظ سے بھی صحیح ہو تو پھر بیٹے یا بیتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنے والدین کی اطاعت کرے،اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ﴿إذا أتاكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تكن في الأرض فتنة وفساد كبير) ’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘[2] تاہم اگر والدین کا انتخاب ایسا ہو کہ جو بعد میں(دونوں کی باہمی رضا مندی نہ ہونے کی وجہ سے)علیحدگی کا باعث بن سکتا ہو تو پھر اس میں والدین کی اطاعت لازمی نہیں،اس لیے کہ ازدواجی زندگی کی اساس ہی رضا مندی رہے اور پھر یہ رضامندی شریعت کے مطابق ہونی چاہیے،وہ اس طرح کہ لڑکے اور لڑکی دین واخلاق والے شریک حیات پر راضی ہونا چاہیے۔
[1] [(بخاري: 5136، كتاب النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، مسلم: 1419، كتاب النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق والبكبر بالسكوت، أبوداؤد: 2094، كتاب النكاح ، باب في الاستئمار، ترمذي: 1109، نسائي: 8716، ابن ماجة: 1871، بيهقي: 7/120)] [2] [(حسن: إرواء الغليل: 1867، ترمذي: 1084، كتاب النكاح: باب ما جاء إذا جاء كم من ترضون دينه فزوجوه، ابن ماجة: 1967، كتاب النكاح، باب الأكفاء)]