کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 86
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحیح تو یہی ہے جو ابن عباس رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ’’نکاح گواہی کے بغیر نہیں ہوتا۔صحابہ کرام،تابعین عظام اور ان کے بعد والے اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے اور ان کا کہنا ہے کہ گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘[1] لہٰذا اگر سائلین نے بغیر گواہوں کے ہی نکاح کر لیا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ لڑکی کے ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کریں۔واللہ اعلم(شیخ عبد الکریم) کیا بھائیوں اور بیٹوں کی گواہی درست ہے سوال:اگر عقد نکاح کے وقت عورت یا مرد کے بھائی یا بیٹے موجود ہوں اور ولی عورت کا ولد یا اس کا کوئی بھائی ہو تو کیا بھائیوں یا بیٹوں کی گواہی شوہر یا بیوی کے حق میں قبول کی جائے گی؟ جواب:بھائی کی گواہی اپنے بھائی کے لیے قبول کی جائے گی،البتہ نہ تو بیٹے کی گواہی اپنے والد کے حق میں قبول کی جائے گی اور نہ ہی والد کی گواہی اپنے بیٹے کے حق میں۔(سعودی فتویٰ کمیٹی) اپنے زنا سے حاملہ لڑکی سے کافر بھائی کی موجودگی میں نکاح سوال:میں نے ایک نصرانی عورت سے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوئی،میں نے اپنی جہالت کی بنا پر یہ سوچا کہ اس معاملے کو صحیح کرنا چاہیے،جس کے لیے ہم نے مسجد میں لڑکی کے کافر بھائی،اس کی والدہ،ایک مسلمان شخص اور مسجد کے امام کے روبرو شادی کر لی،شادی کے وقت وہ لڑکی مسلمان نہیں تھی لیکن ولادت سے قبل اس نے اسلام قبول کر لیا،تو ہماری اس شادی کا کیا حکم ہے؟اس بچے کے بارے میں کیا حکم ہے اور اس کے علاوہ دوسری اولاد کا کیا حکم ہے؟ میں اپنے کیے پر نادم ہوں اور جس جاہلیت پر تھا واپس نہیں جانا چاہتا،اب مجھے یہ خدشہ ہے کہ کہیں ہماری یہ شادی غیر شرعی نہ ہو،جس کی بنا پر میں اپنے اسی گناہ کا مرتکب نہ ہوتا رہوں جو پہلے چکا ہے۔مجھے اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے کیا کرنا چاہیے تاکہ میں اس تنگی سے نکل سکوں؟
[1] [(جامع ترمذی: 4/253)]