کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 82
1۔ ’’تم انہیں اپنے خاوندوں سے شادی کرنے سے مت روکو۔‘‘[1] 2۔ ’’مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو مت دو۔‘‘[2] 3۔ ’’ اور اپنے میں سے بے نکاح مرد وعورت کا نکاح کر دو۔‘‘[3] ان آیات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے اور اس کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب آیات میں عورت کے ولی کو عقدِ نکاح کے بارے میں مخاطب کیا ہے اور اگر(نکاح کا)معاملہ ولی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے کہ "باب من قال:لا نكاح إلا بولي"’’بغیر ولی کے نکاح نہ ہونے کے قول کے بارے میں باب۔‘‘ اور حدیث میں بھی یہ وارد ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔[4] اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا،اس کا نکاح باطل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔(پھر اس ممنوع نکاح کے بعد)اگر مرد اس عورت کے ساتھ ہمبستری کر لے تو اس پر مہر کی ادائیگی واجب ہے کہ جس کے بدلے اس نے عورت کی شرمگاہ کو چھوا۔اگر اولیاء کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حکمران ہے۔‘‘[5]
[1] [(البقرة: 232)] [2] [(البقرة: 221)] [3] [(النور: 32)] [4] [(صحيح: صحيح أبو داؤد: 1836، كتاب النكاح: باب في الولي، أبودؤاد: 2085، ترمذي: 1101، كتاب النكاح: باب ما جاء لا نكاح إلا بولي، دارمي، 2/137، أحمد: 4/394، ابن ماجة: 1881، كتاب النكاح: باب لا نكاح إلا بولي، ابن الجارود: 701، أبو يعلى: 13/195، ابن حبان: 1243- الموارد، دار قطني: 3/218، حاكم: 2/170، بيهقي: 7/107)] [5] [(صحيح: صحيح ابو داؤد: 1835، كتاب النكاح، باب في الولي، أبوداؤد: 2083، أحمد: 6/47، ترمذي: 1102، كتاب النكاح: باب ما جاء لا نكاح الا بولي، ابن ماجة: 1879، كتاب النكاح: باب لا نكاح إلا بولي، ابن الجارود: 700، دارمي: 3/7، دارقطني: 3/221، حاكم: 2/168، بيهقي:7/105، أبو يعلى: 8/147)]