کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 75
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کی ایک شخص سے شادی کر دی تو اس نے اسے طلاق دے دی۔جب اس کی عدت ختم ہو گئی تو وہ پھر شادی کا پیغام لے کر آیا۔میں نے اسے کہا:میں نے اس سے تیری شادی کی،اسے تیرے ماتحت کیا اور تیری عزت افزائی بھی کی لیکن تو نے اسے طلاق دے دی اور اب پھر اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔اللہ کی قسم!وہ کبھی بھی تیری بیوی نہیں بن سکتی۔اس شخص میں کوئی حرج بھی نہیں تھا اور عورت(یعنی میری بہن)بھی اس کے پاس جانا چاہتی تھی۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی:’’ تم انہیں نکاح کرنے سے نہ روکو۔‘‘ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول!میں ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں۔راوی کا بیان ہے کہ پھر معقل رضی اللہ عنہ نے اس کی شادی اس شخص سے کر دی۔[1] اگر وہ کسی خاص شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو جو اس کا کفو بھی ہو اور ولی کسی اور سے شادی کرنا چاہتا ہو(اور وہ بھی اس کا کفو ہو)تب بھی وہ عاضل شمار ہو گا۔ہاں اگر لڑکی کسی ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو جو اس کا کفو نہیں تو وہ عاضل نہیں بلکہ اسے لڑکی کو اس شادی سے روکنے کا حق حاصل ہے۔[2] شیخ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: ’’لڑکی جب سن بلوغت کو پہنچ جائے اور اس کا دینی اور اخلاقی لحاظ سے کفو رشتہ آئے اور ولی بھی اس میں کسی قسم کی جرح وقدح نہ کرے تو اسے چاہیے کہ اس رشتے کو قبول کرتے ہوئے اس سے اپنی لڑکی کا رشتہ کر دے۔اگر وہ اس کی شادی اس لڑکے سے نہیں کرتا تو اسے ولی ہونے کے ناطے جو کچھ اس پر لڑکی کے بارے میں واجب ہوتا ہے یاد دلایا جائے۔اگر وہ اس کے باوجود شادی نہ کرنے پر مصر ہو تو اس کی ولایت ساقط ہو جائے گی اور لڑکی کا قریبی عصبہ رشتہ دار ولی بن جائے گا۔[3] شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں: جب عورت کے ولی کے پاس دینی اور اخلاقی لحاظ سے کفو رشتہ آئے اور وہ اس لڑکی کی شادی کرنے سے انکار کر دے تو اس کی ولایت سب سے قریبی عصبہ رشتہ دار کی طرف منتقل ہو جائے گی۔اگر وہ بھی شادی کرنے سے انکار کر دیں جیسا کہ غالباً ہوتا ہے تو پھر ولایت شرعی حاکم کی طرف منتقل ہو جائے گی اور شرعی حاکم
[1] [(صحیح : صحيح ابو داؤد، ابو داؤد (2087) كتاب النكاح: باب فى العضل، بخاري(4529) كتاب تفسير القرآن: باب واذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن، ترمذى(2981) كتاب تفسير القرآن: باب ومن سورة البقرة، ابن حبان(4081) دارقطنى(3/224) بيهقى(7/104) حاكم(2/180)] [2] [(المغنى لابن قدامة(9/383)] [3] [(فتاوى الشيخ محمد بن ابراهيم(10/97)]