کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 71
لیکن اگر وہ ایسا بدعتی ہے جس کی بدعت کفر کی حد تک نہیں پہنچتی تو اہل علم نے اس شخص سے بھی نکاح کرنے سے بچنے کا کہا ہے اور اس میں بہت سختی کی ہے۔امام مالک  نے کہا کہ ’’بدعتی سے نہ نکاح کیا جائے اور نہ ہی اس کے نکاح میں اپنی لڑکی دی جائے گی اور نہ ہی ایسے لوگوں کو سلام کیا جائے گا....‘‘ [1] امام احمد  کا بھی اس جیسا ہی قول ہے۔ائمہ اربعہ کا فیصلہ ہے کہ مرد عورت کے درمیان نکاح میں دینی کفائت معتبر ہے اور فاسق مرد کسی بھی دیندار اور مستقیم عورت کا کفو(یعنی برابر وہمسر)نہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ) ’’کیا جو مومن ہے وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے،یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘[2] اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دین میں بدعات پیدا کرنا سب سے بڑا فسق وگناہ ہے۔واضح رہے کہ دین میں کفائت کے معتبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر عقد نکاح کے بعد عورت پر یہ انکشاف ہو جائے کہ اس کا خاوند فاسق ہے یا پھر اولیاء کے علم میں یہ بات آ جائے کہ خاوند فاسق ہے تو عورت یا اولیاء کو اس عقد نکاح پر اعتراض کا حق حاصل ہے اور وہ اس کے فسخ کا مطالبہ کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اپنے اس حق کو ساقط کر دیں اور اس خاوند پر راضی ہو جائیں تو یہ عقد نکاح صحیح ہو گا۔اس لیے اس طرح کے نکاح سےبچنا ضروری ہے اور بالخصوص اس لیے بھی کہ مرد کو عورت پر سربراہی حاصل ہے جس کی بنا پر ہو سکتا ہے عورت کو تنگی اٹھانی پڑے اور اور خاوند اسے ایسی بدعات اختیار کرنے پر مجبور کرے یا اسے کچھ معاملات میں سنت نبوی کی مخالفت کرنے کا کہے۔مزید برآں اولاد کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ والد انہیں بدعات وخرافات کا ہی عادی بنائے گا اور ان کی پرورش بھی اسی طریقہ پر کرے گا۔یوں وہ بھی صحابہ کرام کے طریقے کے مخالف پرورش پائیں گے اور اس طرح والدہ جو صحیح سنت کے مطابق چلنے والی تھی اس پربھی تنگی ہو گی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل سنت(سلفی عقیدہ کے حاملین)کے ہاں کسی بدعتی سے نکاح کرنا بہت شدید قسم کا مکروہ ہے کیونکہ اس پر بہت سی خرابیاں اور فساد مرتب ہوتے ہیں اور بہت سی مصلحتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اور پھر جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے لیے کسی چیز کو ترک کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کا نعم البدل عطا فرماتے ہیں۔آپ مزید
[1] [(المدونه:1/84)] [2] [السجدة:18]