کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 70
بدعتی اور میلاد منانے والے سے نکاح سوال:میرا مشکل سا سوال ہے،میری سالی کی عنقریب شادی ہونے والی ہے اور وہ اپنے ہونے والے خاوند کی شخصیت سے خوفزدہ ہے۔میں آپ سے وضاحت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ اس نے مجھے پوچھا کہ کیا جو شخص میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتا ہو اور اس کی تائید کرتا ہو اس سے شادی کرنا صحیح ہے؟مجھے یہ علم ہے کہ ایسا عمل اسلام میں بدعت ہے،لیکن مشکل یہ ہے کہ آیا میلاد منانے والوں سے مسلمان لڑکی کی شادی ممکن ہے۔میں جس ملک میں رہائش پذیر ہوں وہاں پر لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عید اور عبادت سمجھ کر مناتے ہیں اور اس تقریب میں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور پھر اس کی فضیلت میں کچھ احادیث بھی سنائی جاتی ہیں اور نعتیں اور اشعار پڑھے جاتے ہیں اور دعائیں مانگی جاتی ہیں اور لوگ حقیقتاً کھڑے ہو کر گاتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ کسی مسلمان لڑکی کے لیے میلاد منانے والے سے شادی کرنا جائز ہے؟اور اس سے بھی مشکل سوال جسے کرنے سے میں خوف محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسا فعل کرنے والے کو مسلمان شمار کیا جائے گا؟ جواب:جو لوگ میلاد مناتے ہیں ان کی بہت سی اقسام ہیں اس لیے وہ جس طرح کے افعال کریں گے اسی طرح کا ان پر حکم لگایا جائے گا۔اگرچہ میلاد منانا بذات خود ایک بدعت ہے لیکن جس طرح کی مخالفت کا کوئی مرتکب ہو گا اس پر اسی طرح کا حکم ہو گا۔اس طرح بعض اوقات معاملہ شرک اور اسلام سے خروج تک جا پہنچتا ہے جیسا کہ جب میلاد میں کوئی ایسا کام کیا جائے جو کفریہ ہو مثلاً غیر اللہ سے دعا کرنا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ربوبیت کی صفات سے متصف کرنا وغیرہ جیسے دوسرے شرکیہ کام۔ لیکن اگر وہ اس حد تک نہیں پہنچتا تو وہ کافر نہیں بلکہ اسے فاسق کہا جائے گا اور پھر اس میلاد میں بدعات ومخالفات کے ارتکاب کے حساب سے فسق بھی کم اور زیادہ ہو گا۔ میلاد منانے والے شخص سے شادی کا حکم بھی اس شخص کی حالت کے اعتبار سے مختلف ہو گا۔اگر وہ کفریہ کام کرتا ہے تو اس سے کسی بھی حالت میں شادی کرنا جائز نہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’تم شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو مت دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں،ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے،گو مشرک تمہیں اچھا لگے۔‘‘[1] اہل علم کے اجماع کے مطابق اس شخص سے عقد نکاح باطل شمار ہو گا۔
[1] [(البقرۃ:221)]