کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 69
پر مجبور کرے جسے نہ تو آپ چاہتے ہیں اور نہ ہی اس سے شادی کی رغبت رکھتے ہیں۔ اور شادی بھی اس وقت صحیح ہوتی ہے جب اس میں تو سب شروط صحیح طور پر پائی جائیں اور اس میں ایک شرط خاوند کی رضامندی بھی ہے۔ اور نہ ہی آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ اپنے والدین یا جس لڑکی سے شادی کر رہے ہوں اسے اس واقعہ کے متعلق بتائیں۔بلکہ آپ کو یہ حکم ہے کہ اپنے آپ پر پردہ ڈالیں اور اس(گناہ)سے توبہ کریں جو آپ اور آپ کے رب کے درمیان ہے۔اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل فرمان ہے: ’’اس گندے کام سے بچو جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جو کوئی اس کا ارتکاب کر بیٹھے اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پردہ کے ساتھ پردہ پوشی کرنی چاہیے۔‘‘[1].....(شیخ محمد المنجد) نصف دین مکمل کرنے کے لیے شادی سوال:کیا یہ بات درست ہے کہ شادی کرنے سے نصف دین مکمل ہو جاتا ہے؟ جواب:جی ہاں یہ درست ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ (من رزقه الله امرأة صالحة فقد أعانه الله على شطر دينه فليتق الله في الشطر الباقي) ’’جسے اللہ تعالیٰ کوئی نیک بیوی عطا کر دے تو یقیناً اس نے اس کے نصف دین پر مدد کی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ باقی نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔‘‘[2] اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ﴿إذا تزوج العبد فقد استكمل نصف الدين فليتق اللّٰه في النصف الباقي) ’’جب آدمی شادی کر لیتا ہے تو اس کا نصف دین مکمل ہو جاتا ہے،اسے چاہیے کہ باقی نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔‘‘[3].... ﴿………(شیخ عبد الرحمن سعدی)…………
[1] [(صحیح: السلسلۃ الصحیحۃ: 663)] [2] [(حسن، صحیح الترغیب: 1916؛ کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح سیما بذات الدین)] [3] [(حسن: صحیح الجامع الصغیر: 430؛ المشکاۃ: 3096؛ صحیح الترغیب والترہیب: 1916؛ السلسلۃ الصحیحۃ: 625)]