کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 67
رہے گا وہ اس کے ساتھ رہے اور وہ لوگ اس پر متفق ہو جائیں تو یہ نکاح متعہ ہو گا۔اس لیے میں تو اسے حرام سمجھتا ہوں لیکن اگر کسی نے ایسی جرأت کی اور یہ کام کر لیا تو اس کا نکاح صحیح ہے مگر وہ گناہ گار ہو گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس کا خفیہ طریقے سے شادی کرنا۔اگر تو وہ عورت کے ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرتا ہے تو اس کا نکاح صحیح ہے لیکن اگر یہ نکاح عورت کے ولی کے بغیر ہی ہوا ہے اور یا پھر گواہ نہیں تھے تو یہ نکاح صحیح نہیں۔ آخر میں ہم آپ کے خاوند کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر یعنی بیوی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور لوگوں کی عزت کے بارے میں بھی اسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہونا چاہیے اور اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اس طرح کا کھیل اور غلط کام اس کے لیے جائز نہیں۔شادی سکون،رحمت اور محبت ومودت کا نام ہے،اس لیے اسے صرف شہوت پوری کرنے کا ہی ذریعہ نہیں بنا لینا چاہیے اور پھر(شہوت پوری کرنے کے بعد)اس عورت کو حسرت ویاس کی حالت میں چھوڑ دینا قطعاً روا نہیں۔ ہم آپ کو بھی یہ نصیحت کرتے ہیں کہ آپ اپنے خاوند کو اس کام سے منع کرنے میں نرمی سے کام لیں اور اپنے گھر کو مستقل طور پر قائم رکھنے کی کوشش کریں اور خاوند کی نیت کے بارے میں جو کچھ آپ نے ذکر کیا ہے،اس کی صحت کے بارے میں تحقیق کریں کہ آیا واقعتاً اور شادی کرنے اور جو کچھ آپ کو اچھا نہیں لگتا اس کے بارے میں اس کے مقاصد ایسے ہی ہیں یا نہیں۔آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ کبھی عورت اپنے خاوند میں کسی اور کی شرکت پر غیرت کی وجہ سے کسی چھوٹی بات کو بھی بڑا سمجھنے لگتی ہے اور بعض اوقات اس میں شیطانی وسوسے بھی شامل ہوتے ہیں تاکہ مسلمان گھرانے کو تباہ کر سکے۔ آپ اس معاملے میں مزید سوچ سمجھ لیں اور خاص کر نیت کا مسئلہ جس میں آپ کو علم ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ غیب کی بات ہے۔آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی رہیں کہ وہ آپ کو اس معاملے کی حقیقت دکھائے اور آپ اس کے ساتھ رہنے یا پھر اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے بارے میں اپنے رب سے استخارہ کر لیں اور آپ یہ بھی غور وفکر کریں کہ اگر آپ کو طلاق ہو جاتی ہے تو اس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اس کا انجام کیا ہو گا تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ آپ کے لیے علیحدگی بہتر ہے یا کہ صبر کرتے ہوئے خاوند کے ساتھ رہنا اور اگر آپ اسے اپنے بیان کردہ اسباب کی وجہ سے برداشت نہیں کر سکتیں تو آپ اس سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔(واللہ اعلم) ........(شیخ محمد المنجد).......