کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 62
ہے لیکن مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا میرے ساتھ شادی کرنا کوئی اچھا اور افضل نہیں اور نہ ہی اس میں اس کی مصلحت ہے لیکن مجھے اس کا پورا یقین بھی نہیں کہ واقعی اس کے لیے ایسا ہی ہو۔ اولاً اس لیے کہ ہماری قدریں فی الحال کچھ حد تک مشابہ ہیں،اسی طرح ہم بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں واقعی حقیقت یہ ہےکہ میں نے ابھی تک کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو معاملات میں اس حد تک میرے ساتھ موافق ہو،لیکن اس کی زندگی مجھ سے کچھ مختلف رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت وفضل سے اسے ان اشیاء سے بچا کر رکھا ہے جن میں میں پڑی ہوئی تھی۔ اس شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے یہ بھی زیادہ میں جو چیز چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ وہ میرے ساتھ شادی کرنے کے فیصلے میں مطمئن ہو اور اسے یہ شعور ہو کہ ایسا کرنا دینی اعتبار سے صحیح ہے یا ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ جواب:جب كوئی رشتہ مناسب اور کفو ہو یعنی جس شخص کا دین اور اس کی امانت پسند ہو تو اس سے آپ کو صرف خدشات اور شکوک وشبہات اور گمان’جن کی کوئی قدروقیمت نہیں اور نہ ہی ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے‘ پر اعتماد کرتے ہوئے شادی میں دیر نہیں کرنی چاہیے اور ایسے خیالات کی طرف متوجہ بھی نہ ہوں۔بلکہ اگر اس شخص کے اوصاف ایسے ہی ہیں جیسا کہ آپ نے بیان کیے ہیں تو پھر آپ اسے قبول کرتے ہوئے اس سے شادی کر لیں اور اس میں کسی بھی قسم کا تردد نہ کریں۔ اور آپ سے جو نکاحِ متعہ ہو چکا ہے اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ متعہ کرنا حرام ہے اور یہ(دورِ نبوی میں حلال ہونے کے بعد دورِ نبوی میں ہی)منسوخ ہو چکا ہے اور اب اس طریقہ پر شادی کرنا جائز نہیں۔جب آپ کو یہ علم ہو چکا ہے تو پھر آپ اپنے کیے پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اس سے توبہ واستغفار کریں۔(شیخ عبد الکریم) جسے حرام میں مبتلا ہونے کا ڈر ہو کیا وہ تعلیم مکمل کرنے تک شادی مؤخر کر سکتا ہے۔ سوال:میرے پرورش نصرانی معاشرہ میں ہوئی ہے اور میں نے اسلام کو پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔قبول اسلام سے قبل میں نے ایک گناہگار اور نافرمان شخص کو اپنے آپ سے کھیلنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اس کے بعد میں نے اس سے توبہ کر لی ہے اور میں نے اسے اپنے ساتھ لگنے یا پھر غیر مناسب کلام کرنے کی بھی اجازت نہیں دی اور اب وہ بھی اس سے توبہ کر چکا ہے۔