کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 59
متعلق بتا دیا جائے اور یہ بھی کہ اسے شادی کے معنیٰ کا علم نہیں،نہ ہی وہ طلاق اور حقوق واجبہ کو سمجھتا ہے اور یہ کہ وہ نماز کی صحیح کیفیت بھی نہیں جانتا،اسی طرح وہ بے کار ہے اور اس کی گواہی کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ اور نہ ہی اس کے پاس ایسی معلومات ہیں کہ جس سے وہ یہ سمجھ سکے کہ اسے کیا چیز نفع دے گی اور کیا نقصان اور جب اس کی شادی ہو جائے تو یہ لازمی ہے کہ اس کا بھائی یا پھر والد اس کی نگرانی کرے اور اس کی ضروریات پوری کرے،اس کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کرے اور اسی طرح شادی کے لوازمات وخرچہ اور مہر کا بھی انتظام کرنا ضروری ہے،کیونکہ یہ نقص ایسا عیب شمار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نکاح رد ہو سکتا ہے،جب عورت اور اس کے ولی کے سامنے یہ سب کچھ بیان ہو چکا ہو تو ٹھیک(یعنی پھر نکاح درست ہے)کیونکہ مسلمان پھر اپنے شروط پر قائم رہتے ہیں۔(شیخ ابن جبرین) شادی سے پہلے محبت کرنے کا حکم سوال:کیا اسلام میں محبت کی شادی زیادہ کامیاب ہے یا والدین کا اختیار کردہ رشتہ؟ جواب:محبت کی شادی مختلف طرح کی ہے،اگر تو طرفین کی محبت میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ شرعی حدود نہیں توڑی گئیں اور محبت کرنے والوں نے کسی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زیادہ کامیاب ہو گی،کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائی ہے۔ جب کسی مرد کا کسی ایسی لڑکی پر دل معلق ہو کہ جس سے اس کا نکاح جائز ہے یا کسی لڑکی نے کسی لڑکے کو پسند کر لیا تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے کہ ﴿لم نر للمتحابین مثل النکاح) ’’دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے۔‘‘[1] اس حدیث پر حاشیہ لگاتے ہوئے علامہ سندھی  فرماتے ہں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ’’ دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے۔‘‘ یہاں پر لفظ
[1] (صحیح :السلسلة الصحيحة،624، هداية الرولة(3029)،(3/247) صحيح الجامع الصغير (5200) ابن ماجه(1847)كتاب النكاح: باب ماجاء فى فضل النكاح، مستدرك حاكم(2/160) كتاب النكاح: باب لم يرللمتحابين مثل التزوج، بيهقى فى السنن الكبرى(7/78) حافظ بوصيرى نے فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔(الزوائد(2/65)