کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 54
عمر نو برس تھی۔عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی اور بیوی کے لحاف میں وحی نازل نہیں ہوئی،آپ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب بیویویں سے زیادہ محبوب تھیں اور ان کی براءت ساتوں آسمانوں سے نازل ہوئی۔آپ رضی اللہ عنہا سب بیویوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھیں،بلکہ مطلقاً امت اسلامیہ کی سب عورتوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں۔بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آ کر مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔ ان کی شادی کا قصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے بہت غمزدہ ہوئے،اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید اور مدد کیا کرتی تھیں اور ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں،اسی لیے اس سال کو جس میں وہ فوت ہوئیں عام الحزن(غم کا سال)کہا جاتا ہے۔پھر ان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی،بڑی عمر کی تھیں،اور خوبصورت بھی نہیں تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صرف غم بانٹنے کے لیے شادی کی تھی کیونکہ ان کا خاوند فوت ہو چکا تھا اور یہ مشرک قوم کے درمیان رہائش پذیر تھیں۔اس کے چار سال بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچاس برس سے زیادہ تھی۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنے میں مندرجہ ذیل حکمتیں ہو سکتی ہیں: 1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی خواب دیکھی تھی۔صحیح بخاری میں ہے کہ عائشہ ۃؓ بیان کرتی ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا: ’’تو مجھے خواب میں دوبارہ دکھائی گئی تھی،میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی دیکھا،کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے،جب میں نے کپڑا ہٹایا اور دیکھا کہ تو ہے۔میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔‘‘ [1] 2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بچپن میں ہی وہ ان میں جو ذہانت وفطانت اور عقل وشعور کی علامات دیکھیں،تو اس وجہ سے ان شادی پسند فرمائی،تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےاقوال وافعال کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ اچھے انداز میں نقل کر سکیں۔پھر حقیقتاً ایسی ہی ہوا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بڑے بڑے صحابہ کے لیے علم وفقہ کا مرجع بن گئیں۔ 3۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،کہ جنہوں نے دعوت حق کے راستے میں بے پناہ اذیتیں برداشت کیں اور پھر ان پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔لہٰذا علی الاطلاق انبیاء کے بعد وہ سب لوگوں سے زیادہ پختہ ایمان والے اورسچے یقین والے تھے۔
[1] [(بخاری: 3895، کتاب المناقب: باب تزویج النبی عائشة وقدومها المدينة)]