کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 52
﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا) ’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئی ہوں،اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے او ران کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہواور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے حمل کا وضع ہونا ہے۔‘‘[1] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنہیں کم عمری کی بنا پر حیض نہیں آیا ان کی عدت تین ماہ مقرر کی ہے اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ عدت تو نکاح کے بعد طلاق کی وجہ سے ہوتی ہے؟جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی شادی بھی ہو سکتی ہے اور پھر اسے طلاق بھی دی جا سکتی ہے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے چھ برس کی عمر میں شادی کی تھی اور جب وہ نو برس کی ہوئیں تو ان کی رخصتی ہوئی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پچاس برس سے متجاوز تھے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ہے وہ کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ چھ برس کی عمر میں شادی کی اور مجھ سے نوبرس کی عمر میں بنا(یعنی ہم بستری)کی۔[2] اور جس لڑکی کی عمر تیرہ برس ہو اس بات کا احتمال ہے کہ وہ تو بالغ بھی ہو چکی ہو،تو جب وہ بالغ ہے پھر علمائے کرام کا صحیح قول یہی ہے کہ شادی میں اس کی رضامندی شرط ہو گی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورے کےب غیر نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کی جائے۔صحابہ کرام نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!اس کی اجازت کیسے ہو گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ وہ خاموش رہے۔‘‘[3] اور اگر وہ لڑکی بالغ نہیں ہوئی تو اس کے والد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کی شادی کر دے اور اس کے لیے اس سے اجازت حاصل کرنی لازم نہیں ہو گی۔ امام ابن قدامہ  فرماتے ہیں: ’’چھوٹی کنواری بچی کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں(یعنی اس کا والد اس کی شادی کرنے کا اختیار رکھتا
[1] (الطلاق: 4) [2] (بخاري: 3894، كتاب المناقب: باب تزويج النبي عائشة وقدومها المدينة وبنائه بها، مسلم: 1422، كتاب النكاح: باب تزويج الأب البكر الصغيرة) [3] (بخاري: 5136، كتاب النكاح: باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، أبوداؤد: 2094، ترمذي: 1109، نسائي: 8716، ابن ماجة: 1871، بيهقي: 7/120)