کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 51
اور علامہ البانی  ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ موضوع(یعنی من گھڑت)ہے اور پھر کہتے ہیں کہ اس سے ہمیں معاویہ بن جاہمہ کی حدیث مستغنی کر دیتی ہے،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہیں کہنے لگا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورہ کرنے آیا ہوں،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تیری والدہ ہے؟میں نے جواب دیا جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کی خدمت کرو کیونکہ جنت اس کی ٹانگوں کے نیچے ہے۔[1] ان شاء اللہ اس کی سند حسن ہے اور امام حاکم  نے اسے صحیح قر ار دیا ہے۔(مستدرک حاکم:4/151)امام ذہبی  نے بھی ان کی موافقت کی ہے اور امام منذری  نے بھی اس کی صحت برقرار رکھی ہے۔(3/214)نیز دیکھیں:السلسلۃ الصحیحۃ:593).....(شیخ محمد المنجد)..... کم عمر لڑکی سے نکاح کا حکم سوال:میں چھبیس سالہ نوجوان ہوں اور ایک اچھے گھرانے کی لڑکی سے تعارف ہوا ہے۔میری خواہش ہے کہ میں اس سے منگنی کر لوں لیکن مشکل یہ ہے کہ لڑکی ابھی تک چھوٹی ہے اور اس کی عمر صرف تیرہ برس ہے،تو کیا اخلاقی طور پر اس اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے اور ا س سے شادی کی جا سکتی ہے؟اور کیا دینی،معاشرتی اور قانونی طور پر ہماری عمر کا فرق قابل قبول ہو گا؟ فرض کریں اگر شادی ہو جاتی ہے تو یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی سے توشادی پر اس کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے لیکن ایک تیرہ برس کی لڑکی ایسا فیصلہ کرنے پر قادر ہو گی اور کیا اسلام اس طرح کی شادی کی اجازت دیتا ہے؟ جواب:آپ دونوں کے درمیان عمر کے اس فرق کے باوجود اس لڑکی سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں،اہم چیز یہ ہے کہ وہ لڑکی دین دار اور اچھے اخلاق کی مالک ہونی چاہیے۔نکاح کے معاملے میں یہی چیز مطلوب ہے اور شریعت بھی اسی کا حکم دیتی ہے اور اسی سے رضامندی و موافقت اور ان شاء اللہ سعادتمندی کا حصول بھی ہو گا۔ چھوٹی بچی سے شادی کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے:
[1] (حسن صحيح: صحيح نسائي، نسائي: 3104، كتاب الجهاد: باب الرخصة في التخلف لمن له والدة، صحيح الترغيب: 2458، كتاب البر والصلة وغيرهما: باب الترغيب في بر الوالدين وصلتها وتأكيد طاعتها)