کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 505
والد کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹے کے مال سے جو چاہے لے اور اسے اپنی ملکیت بنالے خواہ اسے اس کی ضرورت ہو یا نہ خواہ بیٹا چھوٹا ہو یا بڑا البتہ باپ اپنے بیٹے کا مال شرطوں کے ساتھ لے سکتا ہے۔ 1۔ وہ بیٹے کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے اور نہ ہی وہ چیز لے جو بیٹے کی ضرورت ہو۔ 2۔ وہ ایک بیٹے سے مال لے کر دوسرے بیٹے کو نہ دے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر نص بیان کی ہے۔یہ حکم اس لیے ہے کہ اولاد میں سے بعض کو خاص کر لینا کچھ کو دینا اور کچھ کو نہ دینا صحیح نہیں اور اس طرح کسی ایک بیٹے کا مال لے کر دوسرے کو دینا بالا ولیٰ ممنوع ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ والد کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ بیٹے کا مال لے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ﴿فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا،فِي شَهْرِكُمْ هَذَا،فِي بَلَدِكُمْ هَذَا﴾ "تمھارے خون اور اموال ایک دوسرے پر ایسے حرام ہیں جسے آج کے دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔[1] اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ﴿لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ﴾. "کسی بھی مسلمان کامال اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔"[2] لیکن ہماری دلیل وہ ہے جو ابتداء میں ذکر کر دی گئی ہے اور ہمارے علم میں مطابق وہی قول راجح ہے۔شیخ محمد ابراہیم آل شیخ کے فتاویٰ میں ہے کہ: والد کے لیے اپنے بیٹے کا مال لینا جائز ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے"تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے"اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ: "تمھارا سب سے اچھا کھانا وہ ہے جو تمھاری کمائی کا ہو اور تمھاری اولاد بھی تمھاری کمائی ہے۔"تاہم یہ یاد رہے کہ والد بیٹے کا مال پانچ شروط کے ساتھ لے سکتا ہے۔ 1۔ وہ چیز لے جو بیٹے کو تکلیف نہ دے اور جس کی اسے ضرورت نہ ہو۔ 2۔ ایک بیٹے سے لے کر کسی اور بیٹے کو نہ دے۔
[1] ۔[مسلم 1218۔کتاب الحج باب حجہ النبی] [2] ۔[صحیح ارواءالغلیل 1459]