کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 474
فائدہ:۔ بعض اوقات عدت گزارنے والی عورت میں یا پھر اس کے گھر میں کوئی ا ضطراری حالت پیدا ہوجاتی ہےمثلاً ڈر اور خوف،انہدام،غرق،دشمن کاخوف،وحشت،وہ فاسق وفاجر لوگوں کے درمیان رہائش پزیر ہو،اس کے ورثاء اسے وہاں سے لانے کاارادہ کریں یا پھر اس کا وہاں رہنا اولاد یا مال کے ضیاع کا باعث بن جائے وغیرہ۔ احناف،مالکیہ اور حنابلہ کے جمہور علماء کے ہاں اس حالت میں اس کے لیے وہاں سے اپنی مرضی کی رہائش میں منتقل ہوناجائز ہے۔اور اس کے لیے لازم نہیں کہ وہ اس کے قریب ہی رہائش اختیار کریں بلکہ وہ جہاں چاہے رہ سکتی ہے۔لیکن یہ شرط ہے کہ اس دوسری رہائش میں بھی وہ ان احکام کی پابند کرےجن کی پہلی رہائش میں کرتی تھی۔ اور جو عورت اس گھر میں رہتے ہوئے کہ جہاں وہ اپنے خاوند کی وفات کے وقت موجود تھی،اپنے معاملات چلا سکتی ہوتو اس کے لیے وہاں سے کہیں اور منتقل ہونا درست نہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی عذر نہیں مثلاً وہ وراثت اور املاک کے بارے میں کسی معتبر اور باعتماد شخص کو وکیل بناسکتی ہو وغیرہ۔اس بنا پر آپ کی والدہ جس گھر میں اپنے شوہر کی وفات کے وقت رہ رہی تھیں وہاں پرعدت گزار سکتی ہیں اور ان کے لیے اگر یہ ممکن ہے تو وہ وہیں عدت گزاریں۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد) دوران عدت ممنوعہ کام:۔ سوال۔میرا خاوند فوت ہوچکاہے لہذا مجھے کیاکرنا چاہیے اورکون کون سے اشیاء ہیں جن سے بچنا مجھ پر ضروری ہے؟ جواب۔عدت گزارنے والی عورت پر حدیث کی روشنی میں پانچ چیزوں سے رکنا ضروری ہے: 1۔ جس گھر میں خاوندکی وفات کے وقت رہائش پزیر ہو وہیں عدت گزارنا،اس کی عدت چار ماہ دس دن یا پھر حمل کی صورت میں وضع حمل ہے۔جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.﴿ "اور حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے۔" اور اس گھر سے بلاضرورت نہیں نکل سکتی مثلا بیماری کی حالت میں ہسپتال جانایا اگر اس کے پاس کوئی اور کھانا خریدنے کےلیے نہیں ہے تو بازار سے کھانا وغیرہ لانے کے لیے نکلنا۔اسی طرح اگر وہ گھر منہدم ہوجائے تو کسی