کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 47
سے پیش آؤ۔‘‘[1] اور ایک جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ کچھ اس طرح ہوتا ہے: ﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا) ’’آپ کہہ دیجئے کہ آؤ میں تم وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام کردیا ہے،وہ یہ کہ اللہ تعالی کےساتھ کسی چیز کوشریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔‘‘[2] اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے: ﴿قَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًاإِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا) ’’اورآپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا،اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا پھر دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔‘‘[3] اس لیے والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا اور ان کی رضا مندی حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب سے عظیم اعمال میں سے ہے اور ایسا کرنا سب سے اچھی اور افضل خصلت ہے۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ کسی معین عورت سے شادی کرنا واجب نہیں۔جب کسی عورت سے شادی کی رغبت اور اس کے والدین کی مرضی اور رضا مندی میں اختلاف پیدا ہو جائے تو پھر بلاشک وشبہ والدین کی رضا مندی کو ترجیح دینی چاہیے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا،میں شادی شدہ ہوں اور میری والدہ اسے(یعنی میری بیوی و)طلاق دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا،والد جنت کا درمیانہ دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کو ضائع کر دے یا اس کی حفاظت کر۔[4]
[1] [النساء:36] [2] [(الانعام: 151] [3] [الاسراء23] [4] [ترمذى(1900) ابن ماجه(2089))