کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 468
اور اس پر دو گواہ بھی بنائے تو اس طرح اس کی عدت ختم ہوجائے گی۔ لیکن تیسری طلاق کے بعد عورت اپنی عدت میں خاوند کے پاس نہیں ہوگی بلکہ وہ اس کے گھر سے نکل جائے گی اور وہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں۔جب تک وہ کسی اورمرد سے شادی نہ کرلے اور اگر وہ دوسرا شخص بھی ا پنی مرضی سے اسے طلاق دےدے تو اس کے لیے پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہے۔(شیخ محمد المنجد) مطلقہ حاملہ کی عدت:۔ سوال۔اگر کوئی شخص اپنی بیوی کوطلاق دے اور وہ حاملہ ہو پھر وہ حمل وضع کردے تو کیا وہ عدت گزارے گی؟ جواب۔اگر اسے شوہر کی طرف سے طلاق وضع حمل سے پہلے ہوئی ہے تو پھر اس کی عدت حمل ہے خواہ وہ بہت کم مدت ہی ہو اور اگر اسے طلاق وضع حمل کے بعد ہوئی ہے تو پھر اس کی عدت تین حیض ہے۔(شیخ عبدالرحمان سعدی) مطلقہ حائضہ کی عدت:۔ سوال۔ایسی مطلقہ کی عدت کیا ہے جسے حیض آتا ہے؟ جواب۔جسے حیض آتا ہو اس کی عدت تین حیض ہے قطع نظر اس سے کہ یہ عدت تین ماہ سے زیادہ ہو یا کم کیونکہ مہینوں کا کوئی اعتبار نہیں،ہاں مہینوں کی عدت صرف اس عورت کے حق میں ہے جسے بچپن یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو۔(شیخ عبدالرحمان سعدی) عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح:۔ سوال۔اگر خاوند اور بیوی کے درمیان طلاق کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ جدائی رہے تو کیا وہ دوبارہ آپس میں شادی کرسکتے ہیں؟ جواب۔جب خاوند اپنی بیوی کو پہلی یا دوسری طلاق دے اور اس کی عدت ختم ہوجائے تو بیوی اس سے جدا ہوجاتی ہے اور وہ بائن ہونے کی وجہ سے اجنبی بن جائےگی ہاں اگر وہ دونوں دوبارہ اکھٹے ہونا چاہیں تو انہیں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا اور اس دوسرے نکاح میں بھی پہلے نکاح کی طرح تمام شروط کا ہونا ضروری ہے۔