کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 447
اگر بیوی برے اخلاق کی ہوتو اسے طلاق دینا:۔ سوال۔میرے سالے کی بیوی اپنی ساس کے ساتھ برے اخلاق اور بےادبی سے پیش آتی ہے اور اس کی ہمیشہ بے عزتی کرتی ہے ساس میری بیوی کو ٹیلی فون کر کے بہو سے تنگ آکرروتی ہے میری ساس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔کئی بار شکویٰ شکایت کے بعد انھوں نے بہوکے گھر والوں سے بات چیت کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا اور نہ ہی معاملہ سدھر تا نظر آتا ہے اس لیے انھوں نے طلاق کا سوچا ہے۔تو اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے دے تو درست ہے؟ جواب۔اصل میں طلاق مکروہ ہے لیکن بعض اوقات حالات کچھ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو معاملہ طلاق کے وجوب تک جاپہنچتا ہے تو جو حالات سائل نے ذکر کیے ہیں اس میں ممکن ہے کہ مناسب حل طلاق ہی ہو۔اس لیے کہ خاوند کے بیوی پر جو حقوق ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اس کے والدین کی عزت و توقیر کرے اور پھر خاص کر ساس جو خاوند کی والدہ بھی ہے کیونکہ آدمی پر والدہ کا حق بیوی کے حق سے مقدم ہے اس لیے بیوی کو خاوند کی والدہ کا احترام و عزت کرکے اس کا مدد گار ثابت ہونا چاہیے۔ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ ضرورت کے وقت طلاق جائز و مباح ہے(یعنی جب اس کی ضرورت پیش آجائےمثلاً بیوی بد اخلاق ہو اس کا رہن سہن برا ہو بلا وجہ تکلیف پہنچاتی ہو وغیرہ وغیرہ تو طلاق دی جاسکتی ہے)[1](شیخ محمد المنجد) یہ شرط کہ اگر شوہر دوسری شادی کرے تو دوسری بیوی کو طلاق:۔ سوال۔ایک شخص نے شادی کی تو اس کے سسرال والوں نے یہ شرط رکھی کہ جس عورت سے بھی وہ شادی کرے گا اسے طلاق ہوگی پھر خاوند نے دوسری شادی کر لی اب مذاہب اربعہ میں اس کا کیا حکم ہے؟ جواب۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے جب یہ سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ شرط لازم نہیں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے لازم قراردیا ہے کہ جب بھی خاوند(دوسری)شادی کرے گا۔طلاق ہوجائے گی اور جب بھی وہ کوئی لونڈی حاصل کرے گا وہ بھی آزاد ہو جائے گی۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
[1] ۔مزید دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ 324/10]