کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 446
گھروں سے نکالو(یعنی رجعی طلاق کے فوراًبعد انہیں اپنے گھروں سے مت نکالو بلکہ عدت تک گھر میں ہی رہنے دو)اور نہ وہ خودنکلیں(یعنی عورتیں عدت کے دوران خود بھی گھروں سے مت نکل جائیں)ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے۔"[1] اگر خاوند عدت ختم ہونے تک بیوی سے رجوع نہیں کرتا تو پھر وہ نئے نکاح کے بغیر اس کے پاس نہیں آسکتی۔اور جس نے اپبی بیوی کو طلاق بائن دی تو بیوی کو نہ تو دوران عدت رہائش ملے گی اور نہ ہی نان ونفقہ ہاں اگر حاملہ ہوتو پھر ملے گا طلاق بائن والی عورت کو رہائش اور نان و نفقہ نہ ملنے کی دلیل یہ حدیث ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی رو ایت میں ہے کہ: "ابو عمر و بن حفص نے ان کو طلاق بتہ(یعنی تیسری بائنہ طلاق)دی جبکہ وہ یمن میں تھے ابو عمر وکے وکیل(یعنی نمائندے)نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جانب "جو"بھیجے(اس نے انہیں معمولی سمجھا)اور اس پر ناراض ہوگئی اس نے کہا اللہ کی قسم!تیرا ہم پر کوئی حق نہیں ہے چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا خرچ(اس کے ذمہ)نہیں ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر میں عدت پوری کرے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ وہ ایسی خاتون ہے جس کے پاس میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا آنا جانا ہے تجھے ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس عدت گزارنی چاہیے وہ نابینا انسان ہے تووہاں کپڑے بھی اتارسکتی ہے۔[2] سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿لاَ نَفَقَةَ لَكِ إِلاَّ أَنْ تَكُونِي حَامِلاً﴾ "تیرے لیے نان و نفقہ نہیں الاکہ تو حاملہ ہوتی تو پھر(ہوتا)۔"[3](شیخ محمد المنجد)
[1] ۔[الطلاق:1] [2] ۔[مسلم 1480کتاب الطلاق باب المطلقہ ثلاثہ لا نفقہ لہا ابو داؤد 2284۔کتاب الطلاق باب فی نفقہ المبتوتہ] [3] ۔[صحیح ،صحیح ابو داؤد ،ابو داؤد 2290کتاب الطلاق باب فی نفقہ المبتوتہ ارواء الغلیل 2160صحیح الجامع الصغیر 7550۔مشکاۃ المصابیح 3324]