کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 43
اچھے اخلاق اور اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے،تاکہ وہ لڑکی کے دل کو اپنی جانب مائل کر سکے اور اس طرح اس کی خواہش اور مطلب پورا ہو سکے۔ اور اگر اس کا مقصد اور مطلب حرام کام(یعنی بدکاری وغیرہ)ہو تو پھر وہ لڑکی اس بھیڑیے کا شکار ہو کر اپنے دین کے بعد سب سے قیمتی اور عزیز چیز(عزت وناموس)بھی گنوا بیٹھتی ہے اور اگر اس کا مقصد شرعی ہو(یعنی شادی کرنا)تو پھر اس نے اس کے لیے ایک غیرشرعی طریقہ اختیار کیا ہے اور شادی کے بعد لڑکی اس کے اخلاق اور سلوک وبرتاؤ سے تنگ ہو گی،اس طرح کے معاملات میں اکثر بیویوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے کوئی اچھا اور بہتر رشتہ تلاش کریں اور انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ہونے والے داماد کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق کریں،کسی بھی شخص کو کسی گرما گرم بحث سے پہچاننا ممکن نہیں،یقیناً اس کا کوئی سبب ہو گا جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہو گا۔اصل اعتبار تو اس کے دین اور اخلاق کا ہے اور گھر والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا علم ہونا چاہیے کہ ﴿لم نر للمتحابين مثل النكاح) ’’دومحبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے۔‘‘[1] لڑکی کو چاہیےکہ وہ اپنے والدین کی اطاعت کرے کیونکہ وہ اس کے لیے زیادہ درست چیز کو بہتر جانتے ہیں وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی اپنے خاوند کے ساتھ سعادت کی زندگی بسر کرے جو اس کی حرمت وتقدس کا خیال رکھے اور اس کے حقوق کی بھی پاسداری کرنے والا ہو۔(شیخ محمد المنجد) لڑکی کا دل میں کسی سے محبت کرنا اور اس سے شادی کی دعا کرنا سوال:کیا یہ غلط ہے کہ کوئی لڑکی کسی شخص سے اپنے دل میں محبت رکھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی رہے کہ اس کی اس سے شادی ہو جائے؟ جواب:جب یہ محبت اسے اللہ تعالیٰ کی محبت سے غافل نہ کرے اور اس میں کوئی حرام کام شامل نہ ہو مثلاً اس
[1] (صحیح: السلسلة الصحیحة (624)، هدایة الرواة (3029) 3/247) صحیح الجامع الصغیر (5200) ابن ماجة (1847) کتاب النکاح: باب ماجاء فی فضل النکاح ، مستدرك حاکم (2/160) کتاب النکاح: باب لم یر للمتحابین مثل التزویج، بیهقی فی سنن الکبری ( 7/78) حافظ بوصیری  نے فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ (الزوائد (2/65)