کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 42
’’اطاعت صرف نیکی کے کام میں ہے۔‘‘[1](سعودی فتویٰ کمیٹی)
لڑکی اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنا چاہے اور گھر والے انکار کریں
سوال:لڑکی جس سے محبت کرتی ہے گھر والے اس سے شادی کرنے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تیرے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرے گا اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے لڑکے کو لڑکی سے بحث کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ سخت رویہ میں اس سے بحث کر رہا ہے،لڑکی اس سے محبت کرتی ہے اب اسے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی عورت کے لیے،خواہ وہ کنواری ہو یا شوہر دیدہ،اپنے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرنا جائز نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ عادتاً اور اغلباً گھر والے ہی اپنی بیٹی کے لیے زیادہ مناسب رشتہ تلاش کرسکتے ہیں اور وہی اس کی تعیین کر سکتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے لیے کون بہتر رہے گا،کیونکہ عموماً لڑکی کو زیادہ علم نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے زندگی کا زیادہ تجربہ ہوتا ہے،ممکن ہے وہ بعض میٹھے بول اور اچھے کلمات سے دھوکہ کھا جائے اور اپنی عقل کی بجائے اپنے جذبات سے فیصلہ کر ڈالے(پھر ساری عمر پچھتاتی رہے)۔
اس لیے لڑکی کو چاہیے کہ اگر اس کے گھر والے دینی اور عقلی اعتبار سے صحیح ہوں تو وہ اپنے گھر والوں کی رائے سے باہر نہ جائے بلکہ ان کی رائے قبول کر لے،لیکن اگر عورت کے ولی بغیر کسی صحیح سبب کے رشتہ رد کر دیں یا ان کا رشتہ اختیار کرنے کا معیار ہی غیر شرعی ہو مثلاً اگر صاحب دین اور باخلاق پر کسی مالدار فاسق وفاجر کو ترجیح دیں۔تو ایسی صورت میں لڑکی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنا معاملہ شرعی قاضی تک لے جائے اور ایسے شخص سے شادی کو رکوائے خواہ والدین اس پر مصر ہی کیوں نہ ہوں۔
تیسری بات یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے میں جو محبت پیدا ہوتی ہے ممکن ہے اس کی بنیاد ہی غیر شرعی ہو مثلاً ایک دوسرے سے میل جول،خلوت،کلام اور بات چیت کرنا اور ایک دوسرے کی تصاویر کا تبادلہ وغیرہ،سب کام حرام اور غیر شرعی ہیں۔
اگر تو معاملہ ایسا ہی ہے تو لڑکی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے حرام کام کیا ہے،یہ اس کے لیے مرد کی محبت کا پیمانہ نہیں،اس لیے کہ یہ تو عادت بن چکی ہے کہ مرد اس عرصہ میں بہت زیادہ محبت اور اپنی استطاعت کے مطابق
[1] (صحیح، صحیح الجامع الصغیر (7520) المشکاۃ (3696)