کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 416
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر مرد کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اور وہ آزاد ہوں تو ان کے درمیان تقسیم میں برابری کرنا واجب ہے،خواہ وہ بیویاں مسلمان ہوں یاکتابی اور اگر وہ تقسیم میں برابری نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان شمار ہو گا۔حضرت ابو ہریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿من كانت له امْرَأَتَانِ فَمَالَ إلى إِحْدَاهُمَا جاء يوم الْقِيَامَةِ وشقه مائل﴾ "جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک طرف مائل(یعنی زیادہ وقت دے یا زیادہ خرچ کرنے والا)ہوتو وہ روز قیامت ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کاایک پہلو مفلوج ہوگا۔"[1] اس میلان سے مراد عملی طور پر ایک بیوی کی طرف زیادہ مائل ہوناہے۔کیونکہ اگرکوئی شخص تقسیم وغیرہ میں عدل کرتا ہے تو میلان قلب کا اس سے مواخذہ نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ: ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ﴾ "اور تم ہر گز عورتوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو اس لیے بالکل ایک طرف مائل نہ ہوجاؤ کہ دوسری کو معلق کرکے چھوڑدو۔"[2] اس کامعنی یہ ہے کہ جو کچھ دلوں میں ہے اس کے بارے میں تو تم ہر گز انصاف نہیں کرسکتے لہذا تم بالکل ایک طرف ہی مائل نہ ہوجانا۔[3] حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ: بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے اور یہ عدل راتوں کی تقسیم میں سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔[4] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ: مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل کرے۔اگر ایک
[1] ۔[صحیح :صحیح ابو داود(1867) کتاب النکاح باب القسم بین النساء ابوداود(2133) ترمذی(1141) ابن ماجہ(1969) نسائی(7/3) احمد(2/471) دارمی(2/143) حاکم(2/186) ابن حبان(4207) بیہقی(7/297)] [2] ۔[النساء۔129] [3] ۔شرح السنہ للبغوی(9/150) [4] ۔المحلی لابن حزم(9/175)