کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 415
ہوگا تو اسے بھی تحفہ دیاجائے گا اور اس وقت دوسری کو نہیں ملے گا،لیکن اتناضرور ہے کہ تحفہ دینے میں برابری کرنا لازم ہے۔وہ اس طرح کہ جس نے بچہ جنا ہے اگر اسے ایک سو ریال دیئے ہیں تو دوسری کو بھی ولادت کے وقت ایک سوریال ہی دیئے جائیں۔لیکن جب مشکلات کا خدشہ ہو اور مرد دیکھے کہ دونوں کو تحفہ دینے سے ہی ان مشکلات سے نجات حاصل ہوسکتی ہے تو پھر وہ دونوں کو ہی تحفہ دے دے،یہ یقیناً بہتر بھی ہوگا اور اس میں تالیف قلب بھی ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ) اگرشوہر باری تقسیم کرنے میں دونوں بیویوں کے درمیان عدل نہ کرے:۔ سوال۔کیادو بیویوں سے شادی شدہ شخص پر واجب ہے کہ ہر ایک بیوی کے لیے ایام مخصوص کرے؟میرے خاوند نے ابھی تک ہمارے ایام متعین نہیں کیے،وہ میرے پاس صرف اس وقت آتاہے جب دوسری بیوی کے گھر سے فارغ ہوتاہے اور پھر میرے گھر صرف ہم بستری کے لیے آتاہے۔مجھے یہ ترتیب قبول نہیں اور پھر ہم طلاق تک بھی جاپہنچے ہیں۔ جواب۔خاوند پر ضروری ہے کہ وہ اپنی ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل کرے،جن اُمور میں اس پر واجب ہے کہ وہ برابری اور انصاف سے کام لے ان میں ایام کی تقسیم اور باری بھی شامل ہے۔اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک بیوی کے لیے ایک دن اور رات مقرر کرے اور اس پراس دن اور رات میں اس کے پاس رہنا واجب ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سنت رسول سے یہ ثابت ہے اور مسلمان علماء بھی اسی پر ہیں کہ آدمی کو اپنی بیویوں کے درمیان دن اور رات کی تعداد کو تقسیم کرکے باری مقرر کرنی چاہیے اور اس میں اسے ان سب کے درمیان عدل سے کام لینا چاہیے۔[1] ایک دوسری جگہ پر کچھ اس طرح فرماتے ہیں: آدمی پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرنے میں عدل کرے مجھے اس بارے میں کسی اختلاف کا علم نہیں۔[2]
[1] ۔ [الام للشافعی(1/158)] [2] ۔ [الام للشافعی(5/280)]