کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 412
دوسری شادی کے وقت پہلی بیوی کو بھی مال دینا:۔ سوال۔ہمارے علاقے میں جب کوئی شخص دوسری شادی کرے تو اسے حکم دیاجاتا ہے کہ وہ پہلی بیوی کو بھی کوئی مال(مثلا پیسے،زیور یا کوئی چیز)دے تو اس کاکیاحکم ہے؟ جواب۔جب آدمی ایک بیوی کے بعد کسی دوسری عورت سے شادی کرے توع اس پر واجب نہیں کہ وہ پہلی بیوی کوبھی کوئی مال دے اور نہ ہی اس کو اس پر مجبورکیاجاسکتاہے البتہ یہ پہلی بیوی کو دلی طور پرخوش کرنے یاحسن معاشرت کالحاظ رکھتے ہوئے بہترضرور ہے۔(کہ اسے کچھ دیا جائے)۔(سعودی فتویٰ کمیٹی) دوسری شادی کے بعد دونوں میں عدل کی ابتداء کیسے کرے؟ سوال۔آدمی جب دوسری شادی کرے تو اسے اپنی دونوں بیویوں کے درمیان عدل کی ابتداء کیسےکرنی چاہیے؟ جواب۔امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: جب کنواری سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن ہے اور اس کے بعد باری مقرر کرے اورجب کسی شادی شدہ عورت سے شادی کرے تو اسکے پاس تین دن رہے۔اسلیے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ: "مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب مرد شوہر دیدہ پرکنواری بیاہ کرلائے تو اس نئی دلہن کے پاس پہلے سات روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے۔اور جب شوہر دیدہ کو بیاہ کر لائے تو اس کے پاس تین روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے۔"[1] اور جب شادی شدہ عورت بھی یہ چاہے کہ اس کے پاس سات دن گزارے جائیں تو ایسا کرنا چاہیے پھر باقی سب بیویوں کے پاس بھی سات دن گزارے گا۔اس لیے کہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیا ن کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تین دن تک رہے اور پھر فرمانے لگے: "تیری وجہ سے تیرے گھر والے پر کوئی مشکل نہیں اگر توچاہے تو میں تیرے پاس سات دن گزارتا ہوں اور
[1] ۔[بخاری(5214)کتاب النکاح :باب اذا تزوج الشیب علی البکر مسلم(1461) کتاب الرضاع باب قدر ماتستحقہ البکر والثیب من اقامۃ الزرج عندھا ابوداود(2124) کتاب النکاح باب فی المقام عند البکر،ترمذی(1139) کتاب النکاح باب ماجاء فی القسمۃ للبکر والثیب عبدالرزاق (10643) شرح السنۃ للبغوی(2326) بیہقی(7/301)]