کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 410
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:۔ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان رات بسر کرنے نان ونفقہ اور رہائش وغیرہ میں عدل وانصاف اور برابری کیاکرتے تھے اور اس(یعنی محبت اور جماع)میں برابری واجب نہیں کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کاانسان مالک نہیں۔"[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: "جب خاوند اپنی بیویوں میں سے ہر ایک نا ن ونفقہ،لباس اور رہائش مہیا کردے تو اس کے بعد میلان قلب اور محبت یا پھر کسی کو تحفہ وغیرہ دینے میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔"[2] جو شخص دوسری شادی کرنا چاہے اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ کچھ واجب کیا ہے اگر وہ شخص اس پر قادر ہے تو پھر اس سے دوسری شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ہماری یہ نصیحت ہے کہ آپ اس سے شادی نہ کریں بلکہ اصل میں اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہی نہیں۔ آپ نے جو کہا ہے کہ"وہ دونوں بیویوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا"تو اگر وہ شخص صاحب دین اوراچھے اخلاق کا مالک ہے اور آ پ تنگی اور فقر پر صبر وتحمل کرسکتی ہیں تو اس سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ شادی کرنے والے فقیر شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے فضل سے غنی کردے گا۔جیسا کہ فرمایا: "اگر وہ فقیرہوں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا۔"[3] حتیٰ کہ کچھ سلف حضرات تو اس آیت پر عمل کرتے ہوئے صرف روزی کے حصول کے لیے شادی کیا کرتے تھے لیکن اگر آپ دیکھیں کہ فقر اور تنگ دستی پر آپ صبر نہیں کرسکتیں تو اس سے شادی کرنے سے انکار میں کوئی مضائقہ نہیں۔جب فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شادی کا پیغام دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے انہیں شادی نہ کرنے کا مشورہ دیاتھا کہ وہ تنگ دست ہے اور اس کے پاس مال ہی نہیں۔[4](شیخ محمد المنجد)
[1] ۔[ذاد المعاد(1/151)] [2] ۔[فتح الباری(9/391)] [3] ۔[النور۔32] [4] ۔[مسلم(1480)کتاب الطلاق باب المطلقہ ثلاثا لانفقہ لھا]