کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 407
طلاق کی بہ نسبت اس کی طلاق میں زیادہ نقصان ہے اس لیے میں نے اپنے خاوند کو مجبورکیا ہے۔کہ وہ مجھے طلاق دے دے حالانکہ میں نے اپنے وقت میں سے بہت سے حقوق بھی چھوڑدیے ہیں اور اس کی یہ شرط بھی تسلیم کرلی ہے کہ اس موضوع کے بارے میں اس کی اولاد کو علم نہیں ہونا چاہیے تو اس کے باوجود پہلی بیوی خاوند کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ دوسری بیوی کو طلاق دے؟ جواب۔پہلی بات یہ ہے کہ کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ خاوند سے اس کی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے۔حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں کہ اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کے برتن کو فارغ کرکے خود نکاح کرلے،بلکہ اس کےمقدر میں جو کچھ ہے وہ اسے ملے گا۔"[1] حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ(عورت کے لیے سوکن کی طلاق کا مطالبہ)حلال نہیں اس شرط کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔۔۔حلال کی نفی کرنے سے تحریم کی صراحت ہورہی ہے۔لیکن اس سے فسخ نکاح لازم نہیں ہوتا بلکہ یہ تو عورت پر سختی کی جارہی ہے کہ وہ اپنی دوسری بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہے۔[2] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: اس حدیث کامعنی یہ ہے کہ اجنبی عورت کو منع کیا گیا ہے کہ وہ شادی کرنے کے لیے دوسری بیوی کے خاوند سے اس کی طلاق کا مطالبہ کرے اور مطلقہ کی جگہ خود شادی کرکے اس کا خرچہ وغیرہ حاصل کرے۔یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مجازی طور پر برتن خالی کرنے سے تعبیر کیا ہے۔[3] اس بنا پر پہلی بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند سے آ پ کی طلاق کا مطالبہ کرے اورجو کچھ وہ کہتی ہے آپ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ اس غیرت کی وجہ سے ہے جو عورت میں عمومی طور پر پائی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس نے جو کچھ آپ پراحسانات کیے ہیں اس پر تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ماجور ہے۔لیکن
[1] ۔[بخاری(5152) کتاب النکاح باب الشروط التی لا تحل فی النکاح مسلم(1408)کتاب النکاح باب تحریم الجمع بین المراۃ وعمتھا او خالتھا فی النکاح موطا(1129)کتاب النکاح باب ما لا یجمع بینہ من النساء احمد(9959)نسائی فی السنن الکبری(5419)] [2] ۔[کما فی فتح الباری(9/27)] [3] ۔[شرح مسلم للنووی(9/193)]