کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 393
اور جو معاشرے کو نقصان ہوگا وہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھ رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اور گندے راستے پر چل نکلے گی جس سے وہ زنا بدکاری میں مبتلا ہوجائے گی اور معاشرے میں فحاشی اور ایڈز جیسی گندی مہلک اور لا علاج بیماریاں جنم لیں گی اور پھر خاندان تباہ ہوں گے اور حرام کی اولاد بہت زیادہ پیدا ہونے لگے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے؟اس طرح انہیں نہ تو کوئی مہربانی اور نرمی کرنے والا ہاتھ ہی نصیب ہوگا اور نہ ہی ایسی عقل وفہم ملےگی جو ان کی اچھی تربیت کرسکے اور جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں گے اور انہیں اپنی حقیقت کا علم ہوگا کہ وہ زنا کی اولاد ہیں تو دلبرداشتہ ہوکر یا تو خود کشی کی طرف دوڑیں گے پھر یا وہ معاشرے پر وبال بن جائیں گے اور اسے اپنے اوپر ہوئے ظلم کی سزا دیں گے جس سے فسادات کی کثرت ہوجائےگی اور معاشرے تباہی کے کنارے پر پہنچ جائیں گے۔ 3۔ مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جو کہ ہوسکتاہے ان کی زندگی ہی ختم کردیں اس لیے کہ وہ بہت زیادہ محنت ومشقت کے کام کرتے ہیں کہیں وہ جنگوں میں شریک ہوتے ہیں کہیں ان کی شہادت کی خبریں موصول ہوتی ہیں تو مردوں کی صفوں میں وفات کا احتمال عورتوں کی صفوں سے زیادہ ہے جو کہ عورتوں میں بلاخاوند رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا سبب ہے۔اور اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کو رواج دیاجائے۔ 4۔ مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں جن کی شہوت قوی ہوتی ہے انہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی تو اگر ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اور اس شخص سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی اجازت ہے تو وہ بہت ہی زیادہ مشقت میں پڑ جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شہوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے۔آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کو ہر ماہ حیض بھی آتا ہے اور جب ولادت ہوتی ہے تو پھر وہ چالیس روز تک نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا،کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حیض اور نفاس کی حالت میں ہم بستری کرنا حرام ہے۔اور پھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکاہے اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہو تو ایک سے زیادہ شادیاں کو جائز کیا گیا ہے۔ 5۔ یہ تعدد صرف دین اسلام میں ہی جائز نہیں کیاگیا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھا اور بعض انبیاء علیہ السلام کئی عورتوں سے شادی شدہ تھے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں اسی طرح عہد رسالت میں کئی ایک مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اور بعض کے پاس پانچ تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دے دیا کہ وہ ان میں سے چار کو رکھیں اور باقی کوطلاق دے دیں۔