کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 392
تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہیں۔لیکن وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے مفسرین فقہائے عظام اور سب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔ 2۔تعدد زوجات کی اباحت میں حکمت: 1۔ زیادہ شادیوں کو اس لیے جائز کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہو اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی اور ایک بیوی کی بہ نسبت اگر زیادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زیادتی ہوگی۔اور اہل عقل ودانش کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے اور پھر افرادی قوت کی زیادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس سے معیشت بھی مضبوط ہوگی لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ ملک میں حکمران تدبیری اُمور صحیح طور پر جاری کریں۔ آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ افراد کی کثرت نقصان دہ ہے اور خوشحالی کے لیے مضر ہے یہ بات غلط ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ حکیم وعلیم ہے جس نے ایک سے زیادہ شادیوں کو جائز قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اُٹھائی ہے اور زمین میں وہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے۔جو ان سب کے لیے کافی ہے بلکہ کفایت سے بھی زیادہ ہے۔اور اگر کچھ کمی ہوتی تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم وزیادتی اور غلط قسم کی پلاننگ کی وجہ سے ہے مثال کے طور پر آپ افرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جو کہ اس وقت ساری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے۔بلکہ کئی ہزار گنا شمار ہوتا ہے۔اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے اور کون ہے جوچین پر چڑھائی کرنے کا سوچے اور اس کی جراءت کرے؟کاش لوگ تعدد کے فوائد جان جائیں۔ 2۔ سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تو اس طرح اگر ہر مردصرف ایک عورت سے ہی شادی کرے گا تو کتنی ہی عورتیں کنواری ہی رہ جائیں گی جو کہ معاشرے اور بذات خود عورت کے بھی نقصان دہ ہے۔عورت ذات کو جو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جو اس کی ضروریات پوری کرے اور اس کی معاش اور رہائش کا بند وبست کرے اور حرام قسم کا شہوات سے اسے روک کررکھے اور سے ایسی اولاد پیدا کرے جو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو نتیجتاً وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اور ضائع ہو جائے گی سوائے اس کے جس پرپروردگار کی خاص رحمت ہو۔