کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 39
واجب ہے۔پھر عورت کے نکاح کے حکم میں اسی کا قول فیصل ہے:اگر تو وہ اس کی محتاج ہو یا نفقہ وخرچہ کی ضرورت مند ہو یا وہ فاجر قسم کے لوگوں کے حملے سے ڈرے تو پھر اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے یعنی اس میں اس کے دین اور شرمگاہ کی حفاظت اور نفقہ وغیرہ کی خوشحالی ہے۔‘‘
المغنی میں امام ابن قدامہ رقمطراز ہیں کہ
’’وجوب نکاح میں ہمارے اصحاب میں اختلاف ہے،مشہور مسلک تو یہی ہے کہ یہ واجب نہیں ہے لیکن اگر کسی کو نکاح ترک کرنے کی بنا پر حرام کام میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو اس پر اپنے نفس کی عفت لازمی ہے،عام فقہائے کرام کا یہی قول ہے۔‘‘
نکاح کے سلسلہ میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں:
’’کچھ تو ایسے ہیں کہ اگر وہ نکاح نہ کریں تو انہیں حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔عام فقہائے کرام کے نزدیک ایسے لوگوں کے لیے نکاح کرنا واجب ہے۔کیونکہ ان پر اپنے آپ کو حرام کام سے بچانا اور پاکدامنی اختیار کرنا لازم ہے اور یہ نکاح کے بغیر نہیں ہو سکتا۔‘‘
اور سبل السلام میں ہے کہ
’’ابن دقیق نے ذکر کیا ہے کہ جسے حرام میں پڑنے کا خدشہ ہو اور وہ نکاح کی طاقت بھی رکھتا ہو ایسے شخص پر کچھ فقہائے کرام نے نکاح کرنا واجب قرار دیا ہے۔تو ایسے شخص پر نکاح واجب ہو گا جو نکاح کیے بغیر زنا ترک نہیں کر سکتا۔‘‘
اور صاحب بدائع الصنائع کا کہنا ہے کہ
’’نکاح کی خواہش اور طاقت رکھنے کی حالت میں نکاح کرنا فرض ہے حتی کہ جو شخص عورت کی خواہش رکھتا ہو اور صبر نہ کر سکتا ہو اور مہر ونان ونفقہ کی قدرت رکھنے کے باوجود بھی نکاح نہ کرے تو وہ گناہگار ہو گا۔‘‘
درج بالا سطور میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ کن کن حالات میں نکاح کرنا واجب ہوتا ہے،اب اگر آپ یہ کہیں کہ ہم عورت کے متعلق یہ کس طرح تصور کر سکتے ہیں؟عرف عام میں رواج تو یہ ہے کہ مرد ہی رشتہ تلاش کرتا،شادی کا پیغام دیتا اور نکاح کے لیے دروازے کھٹکھٹاتا ہے،یہ کام عورت کا نہیں(اس لیے وہ کیسے فوری طور پر وجوب پر عمل کر سکتا ہے)؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سلسلے میں جو کچھ عورت کر سکتی ہے وہ کرے اور وہ یہ ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی اچھا اور کفو دینی رشتہ آتا ہے تو وہ اسے رد نہ کرے بلکہ قبول کر لے۔