کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 384
بلاوجہ منصوبہ بندی کاحکم:۔ سوال۔میں ایک چھتیس برس کی عورت ہوں اور میرے چھ بچے بھی ہیں اور ساتویں کا حمل ہے میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا میرے لیے منصوبہ بندی کرانا جائز ہے تاکہ کچھ مدت تک حمل نہ ہوسکے؟مجھے یہ علم ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کو روک نہیں سکتی لیکن میں صرف اپنا وزن کم کرنا چاہتی ہوں۔اس وقت میرا وزن 250 پاؤنڈ ہے(تقریباً 115 کلو گرام)میں جب بھی وزن کم کرنے کے لیے بچاؤ کرتی ہوں مجھے حمل ہوجاتا ہے۔ جواب۔حمل روکنا جائز نہیں لیکن اگر اس کی ضرورت ہو اور ماہر قسم کے ڈاکٹر یہ فیصلہ کردیں کہ ولادت کی وجہ سے کمزوری بہت زیادہ ہوجائے گی یا پھر مرض کے زیادہ ہونے کا خدشہ ہو یا پھر حمل یا ولادت کی وجہ سے ہلاکت کا خدشہ غالب ہوتو پھر جائز ہے لیکن اس منع حمل میں بھی خاوند کی رضا مندی کا شامل ہونا ضروری ہے اور جب یہ عذر ختم ہوجائے تو پھر عورت کو اپنی اصلی حالت پر لایا جائے۔[1] آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ وزن کم کرنا چاہتی ہیں تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ایسا عذر نہیں جس کی وجہ سے منصوبہ بندی کو مباح قرار دیا جائے لہذا آپ کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔ہاں وزن کم کرنے کے لیے ہم آ پ سے کہیں گے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "آدمی کا سب سے بڑا بھرا ہوا برتن پیٹ ہے اسے اتنا ہی کافی ہے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھے اگر وہ ضرور ہی کھانا چاہتاہے تو پھر پیٹ کے تین حصے کرے،ایک کھانے کے لیے ایک پینے کے لیے اور ایک سانس کے لیے۔"[2] اسی طرح آپ سے(حمل سے بچاؤ)کے لیے بعض مباح وسائل کو بھی بروئے کار لاسکتی ہیں مثلاً دوران جماع عزل کرنا(یعنی انزال با ہر کردینا)اہل علم کے ہاں صحیح قول یہی ہے کہ سبب کے بغیر بھی انزال کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ حدیث میں واردہے: ﴿كُنَّا نَعْزِلُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ﴾ "ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن بھی نازل ہورہا تھا۔"[3]
[1] ۔دیکھئے ف:[تاویٰ المراۃ المسلمۃ(2/977)] [2] ۔[صحیح :صحیح الجامع الصغیر(5674)] [3] ۔[بخاری(5209) کتاب النکاح باب العزل مسلم(1440) کتاب النکاح باب حکم العزل ابو یعلی(2193) ترمذی(1137) کتاب النکاح باب ما جاءفی العزل احمد(3/377) بیہقی)(7/228)]